امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اپنے ایک حالیہ بیان میں روس کی یوکرین میں جاری جنگ کو ’نسل کشی‘ قرار دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ اس تنازع کی سنگینی بیان کرنے کے لیے دیا گیا محض سخت بیان نہیں بلکہ اس میں ایک ایسی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جس کے کئی قانونی تقاضے بھی ہیں۔
کسی بھی ملک کی مہم جوئی میں کسی خاص انسانی گروہ کو ختم کرنے کی کوششوں کو جب ’جینوسائیڈ‘ یا ’نسل کُشی‘ قرار دیا جاتا ہے تو اس سے نہ صرف اس تنازع کو شروع کرنے والے ملک پر دباؤ بڑھتا ہے بلکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور شدہ معاہدے کے تحت اسے نسل کُشی کہنے والے ملک پر بھی کچھ اقدامات لازم ہوجاتے ہیں۔ اس معاہدے پر امریکہ سمیت دنیا کے 150 ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے منگل کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ روس کے صدر پوٹن ’یوکرینی ہونے کے خیال‘ تک کو صفحۂ ہستی سے مٹانا چاہتے ہیں۔ برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن بھی کہہ چکے ہیں کہ یوکرین میں روس کے اقدامات نسل کُشی سے کم سنگین نہیں ہیں۔ لیکن برطانیہ نے باضابطہ طور پر اس اصطلاح کا استعمال نہیں کیا ہے اور اس کا فیصلہ عدالتیں ہی کرسکتی ہیں۔
یہاں ان پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے جس کے تحت کوئی بھی عالمی رہنما کسی مسلح تنازع کے فریق کے اقدامات کو نسل کُشی قرار دے سکتا ہے۔
جینو سائیڈ کا مطلب کیا ہے؟
جینو سائیڈ ایک قدیم جرم کے لیے قدرے جدید اصطلاح ہے۔ پولینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک یہودی وکیل رافیل لیمکن نے دوسری عالمی جنگ اور ہولوکاسٹ کے عروج کے دنوں میں یہ اصطلاح وضع کی تھی۔
لیمکن چاہتے تھے کہ یورپ میں نازی جرمنی نے یہودیوں اور آرمینیائی باشندوں کو ترکی نے جس طرح ایک نسلی گروہ کے طور پر نشانہ بنایا تھا، ان جرائم کو بیان کرنے کے لیے علیحدہ لفظ یا اصطلاح ہونی چاہیے۔
اس کے لیے رافیل لیمکن نے یونانی لفظ ’جینو‘ اور لاطینی لفظ ’سائیڈ‘ کو ملا کر ایک نیا لفظ بنایا۔ اس میں جینو کا مطلب نسل اور سائیڈ کا مفہوم قتل ہے۔ اس کے بعد رافیل لیمکن نے جینو سائیڈ کو ایک الگ جرم کے طور پر تسلیم کروانے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔
سن 1948 میں جب ہٹلر اور اس کے ساتھیوں نے منظم طریقے سے یورپ میں 60 لاکھ یہودیوں کو قتل کیا تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے نسل کشی کے جرائم کی روک تھام اور سزاؤں کے لیے بین الاقوامی کنونشن کی منظوری دی۔
نسل کشی کی قانونی تعریف
اقوام متحدہ کے کنونشن کے مطابق کسی قومی، لسانی، نسلی یا مذہبی گروہ کو جزوی یا مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے کیے گئے جرائم جینوسائیڈ یا نسل کُشی کہلاتے ہیں۔
اس میں قتلِ عام کے علاوہ جبری نس بندی، جسمانی یا نفسیاتی تشدد اور کسی گروہ سے بچے چھین کر انہیں کسی اور کے زیر کفالت دینے جیسے اقدامات شامل ہیں۔
کیا روس یوکرین میں نسلی کشی کا مرتکب ہے؟
روسی افواج یوکرین میں میڈیا رپورٹس کے مطابق بڑے پیمانے پر شہریوں کو قتل کرنے اور ان کے حقوق کی پامالی جیسے جرائم کا ارتکاب کررہی ہیں۔
انہیں جنگی جرائم تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن کیا یہ نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں؟
اس بارے میں امریکہ کے سابق وفاقی پراسیکیوٹر اور یوکرین کے پراسیکیوٹر جنرل کے سابق مشیر بوہڈان وٹوٹسکی کا کہنا ہے کہ اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ آیا یوکرین میں روسی افواج نسلی کشی کے ارادے سے اقدامات کررہی ہیں؟ صدر پوٹن کے بیانات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق پوٹن یوکرین کو بطور ملک اور یوکرینیوں کو بطورعلیحدہ قوم تسلیم ہی نہیں کرتے۔ وہ ان کے علیحدہ وجود اور شناخت ہی سے انکاری ہیں۔ پوٹن اس کے لیے اس دور کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہیں جب یوکرین روسی سلطنت اور بعدا ازاں سوویت یونین کا حصہ تھا۔
پوٹن اور روس کا سرکاری میڈیا یوکرین کی قیادت کو غلط طور پر ’نازی‘ اور ’نشے کا عادی‘ قرار دیتی ہے اور پوٹن نے فوجی کارروائی کو یوکرین میں نازیوں کے خاتمے کی مہم قرار دیا ہے۔
دی ہیگ میں جنگی جرائم کے مقدمات پر کام کرنے والی انسانی حقوق کی وکیل گیسو نیا روسی افواج کے دو ایسے اقدامات کی نشاندہی کرتی ہیں جو نسل کُشی کے عزائم کو ظاہر کرتے ہیں۔
ان کے مطابق اس بات کی اطلاعات ہیں کہ یوکرین سے تعلق رکھنے والے ہزاروں بچوں کو ملک سے بے دخل کرکے روس بھیجا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ یوکرین کی حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ روسی فوجیوں نے مبینہ طور پر بوچا میں 25 خواتین کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور وہ انہیں ریپ اور زیادتی کا نشانہ بنا کر ان کی تولیدی صلاحیت ختم کرنا چاہتے ہیں۔
نسلی کشی قرار دینے سے کیا ہوگا؟
جینو سائیڈ کنونشن میں امریکہ سمیت دیگر دستخط کرنے والے ممالک پر لازم کیا گیا ہے کہ اگر وہ کہیں نسل کشی کے ارتکاب کی نشاندہی کرتے ہیں تو کم از کم ہنگامی بنیادوں پر ان واقعات کی تحقیقات اور قانونی کارروائی کے لیے اقدامات کریں گے۔
کنونشن کے میں نشل کشی کے مرتکب افرد اور ممالک کو سزا دینے کا نکتہ بھی شامل ہے۔
امریکی قیادت دباؤ کے باوجود گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران کمبوڈیا، بوسنیا، عراق، روانڈا اور دیگر ممالک میں ہونے والے قتلِ عام کو نسلی کشی قرار دینے سے گریز کرتی آئی ہے۔
سن 1994 میں روانڈا میں توتو نسلی گروہ کے آٹھ لاکھ افراد کو ہوتو گروہ نے قتل کیا تھا۔ صدر کلنٹن نے اس قتل عام کو روکنے میں ناکامی پر اظہارِ افسوس کیا تھا۔ لیکن جون 1999 میں پہلی بار انہوں ںے کوسووو میں سرب فوجوں کی البانی نسل کے لوگوں کے خلاف کارروائیوں کو نسل کشی کی کوشش قرار دیا تھا۔
بعدازاں نیٹو نے اس جنگ میں مداخلت کی تھی اور 78 دنوں تک فضائی کارروائیاں کی تھیں جن کے نتیجے میں سرب جنگجو کوسووو سے پسپا ہونے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اس کے بعد ایک بین الاقوامی ٹریبونل بنایا گیا تھا جس نے سرب لیڈر میلوسیوچ پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا تھا تاہم مقدمے کی کارروائی مکمل ہونے سے قبل ہی اس کی موت ہوگئی تھی۔
عالمی رہنماؤں نے 2005 میں اصولی طور پر نسلی کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم روکنے کی مشترکہ ذمے داری پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے بعد بھی دنیا میں انسانوں کو گروہی بنیادوں پر نشانہ بنانے کی کارروائیاں سامنے آتی رہی ہیں لیکن یہ مشترکہ ذمے داری کا تصور کہیں عمل کی صورت میں ڈھلتا ہوا نظر نہیں آتا۔
روسی اقدامات کو امریکہ اگر جینو سائیڈ قرار دے تو کیا ہوگا؟
امریکی قیادت کو اس بات کا خدشہ ہے کہ کسی تنازع کو نسل کُشی قرار دینے کی صورت میں انہیں براہ راست مداخلت کرنا پڑے گی اور اس کے لیے فوج بھی بھیجنی پڑ سکتی ہے۔ ایسی مداخلت کے لیے اخراجات برداشت کرنے کے ساتھ سیاسی ردعمل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے عام طور پر امریکی رہنما خود کو سخت بیانات اور انسانی امداد تک محدود رکھتے ہیں۔
بائیڈن یوکرین میں روسی فوج کی کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی فوج بھیجنے سے صاف انکار کرچکے ہیں۔ ان کے مطابق اس اقدام سے تیسری عالمی جنگ کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔
امریکہ اور یورپ میں اس کے اتحادی روس پر پابندیاں عائد کرکے اور یوکرین کو دفاعی امداد فراہم کرکے اس جنگ میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
صدر بائیڈن اور دیگر مغربی رہنما روس کے خلاف جنگی جرائم کی کارروائی کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اس سلسلے میں تحقیقات کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ لیکن آئی سی سی کی کارروائی سے متعلق امریکہ کو دیرینہ تحفظات ہیں۔ اسے خدشہ ہے کہ اس کے فوجی اہل کاروں کے خلاف بھی ایسی کوئی کارروائی شروع ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے اس اقدام کی حمایت مسقبل میں پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے۔
سیکیورٹی کونسل میں روس کو حاصل ویٹو کے اختیار کی وجہ سے بھی پوٹن کو عدالتی کارروائی میں جواب دہ بنانے کے امکانات بہت کم ہیں۔
ماضی میں امریکی شہریوں کی جانب سے غیر ملکی جنگوں میں شریک ہونے کی مخالفت سامنے آتی رہی ہے۔ اس وجہ سے بھی امریکی قیادت ممکنہ نسل کشی کی کوششوں کو روکنے کے لیے براہ راست کوئی قدم اٹھانے سے گریزاں ہے۔
لیکن روس کی یوکرین میں جارحیت اور سفاکانہ کارروائیوں پر امریکی شہریوں میں جو غم و غصہ پایا جاتا ہے ویسا کمبوڈیا، عراق کے کرد علاقوں یا کسی اور خطے میں نسل کشی کی کارروائیوں کے خلاف سامنے نہیں آیا تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس اور نوک سینٹر فار پبلک افیئرز ریسرچ کی کرائی گئی حالیہ رائے شماری میں 40 فی صد امریکی سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو روس کی جارحیت روکنے کے لیے ’بڑا کردار‘ ادا کرنا ہوگا۔ جب کہ 13 فی صد کا خیال ہے کہ امریکہ کو اس معاملے میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔