جنوبی سوڈان: جنگ بندی معاہدے پر دستخط

فائل

جنرل تابان دنگ گائی کا کہنا ہے کہ باغیوں نے دستخط میں تاخیر کی، کیونکہ انھیں دالحکومت جوبا میں فوجیوں کی تعداد کے حوالے سے تشویش تھی

جنوبی سوڈان میں باغیوں نے اگست کے امن معاہدے کے مطابق سوموار کو سیکورٹی انتظامات پر عملدرآمد کےلئے ایک معاہدے پر دستخط کردئے ہیں، جہاں جنگ بندی کے باوجود لڑائی جاری رہی ہے۔ لیکن، اس نئے اقدام سے تمام جماعتیں زیادہ پُرامید ہیں۔

ادیس ابابا سے ’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے مارتھن وان ڈر وولف کی رپورٹ کے مطابق، جنوبی سوڈان کے وفد نے جس معاہدے پر دستخط کئے اس میں سیکورٹی انتظامات کے حوالےسے تمام تفیصلات درج ہیں، جس پر سرکاری وفد اور سابق سیاسی قائدین کے ایک نظربند گروپ نے دسختط کئے۔ لیکن، بقیہ باغیوں نے اسے مسترد کر دیا۔

جنرل تابان دنگ گائی کا کہنا ہے کہ باغیوں نے دستخط میں تاخیر کی، کیونکہ انھیں دارلحکومت جوبا میں فوجیوں کی تعداد کے حوالے سے تشویش تھی۔

حکومت سمجھ رہی تھی کہ پانچ ہزار جس کی نشاندہی معاہدے کی روداد میں موجود ہے صرف ان کے لئے ہے، لیکن اب سمجھتی ہے کہ ان میں دوسروں کو بھی شریک کرنا ہوگا۔ یہ فوج کا پہلا یونٹ ہوگا جو مشترکہ ہوگا۔

فورسز میں حصہ داری کی تفیصلات کے سلسلے میں بات چیت جاری رہے گی اور آئی جی اے ڈی اور مشرقی افریقی بلاک ان توقعات کے ساتھ بات چیت کو آگے بڑھا رہے ہیں کہ کوئی حل نکل آئے گا۔

جنوبی سوڈان کے ڈپٹی منسٹر برائے خارجہ امور خارجہ، پیٹر بشیر کا کہنا ہے کہ بریک تھرو ہونے والا ہے۔انھوں نے کہا کہ معاہدے کے نکات مستقل جنگ بندی اور سیکورٹی کے انتظامات کو حتمی شکل دینے کا باعث بن سکتے ہیں۔

صدر سلوا کیر اور ان کے سابق ڈپٹی کے درمیان چپقلش دسمبر 2013ء میں تشدد کا رخ اختیار کرگیا تھا، جس نتجے میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور انھیں انسانی مدد کی ضرورت پیش آئی۔

اقوام متحدہ نے اسی ماہ خبردار کیا تھا کہ سوڈان میں تقریباً چالیس لاکھ لوگوں کو خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

متحارب گروپوں کے درمیان 2014ء سے اب تک جنگ بندی کے درجنوں معاہدے ہوچکے ہیں، لیکن کسی بھی معاہدے کے بعد امن قائم نہیں ہوا۔