اقوام متحدہ کے خوراک کے پروگرام کی ایک عہدےدار مرویٰ عواد عمیق نظروں سے جنوبی سوڈان کے حالات کا جائزہ لینے بعدکہا ہے کہ اس وقت جنوبی سوڈان خوراک کے سب سے بڑے بحران سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے "ساؤتھ سوڈان ان فوکس" کو بتایا کہ آنے والے مہینوں میں جنوبی سوڈان کے تقریباً 83 لاکھ افراد شدید بھوک کا شکار بنیں گے ، کیونکہ خوراک کا موجودہ ذخیرہ ختم ہو جائے گا اورایک ایسا موسم آ جائےگا جس میں کم ترین پیداوار کی توقع کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے انہیں مزید خوراک فراہم نہ کی تو 80 لاکھ سے زیادہ افراد بھوک کے حالات میں زندگی گزاریں گے۔ لوگوں کی قوتِ برداشت ختم ہو رہی ہے۔ دوسری طرف تنازعات، سیلابوں اور مہنگائی نے زندگی اجیرن کر دی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کو خوراک کی فراہمی کے لیے مناسب فنڈز درکار ہیں، تاکہ زیادہ سےزیادہ ضرورت مند لوگوں تک خوراک پہنچائی جا سکے۔
جنوبی سوڈان کے بہت سے خاندان ورلڈ فوڈ پروگرام سے ملنے والی خوراک پر گزارا کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض علاقوں میں چھ مہینے پہلے ہی خوراک کی فراہمی منقطع ہو گئی تھی۔ ایک خاتون موتھ کہتی ہیں کہ وہ اب تھوڑی بہت سبزیاں اگا لیتی ہیں، جنہیں بیچ کر وہ اپنے لیے کھانا خرید تی ہیں, کیونکہ ان کے شوہر کی محض تنخواہ سے پورا نہیں پڑتا۔
اس کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ مہنگائی کا بھی ہے۔ پہلے چار ہزار سوڈانی پاؤنڈ کا دو لیٹر کا گھی ملتا تھا اب وہ پانچ ہزار پاؤنڈ کا ہوگیا ہے ، چینی کی بوری جو پہلے 15 ہزار کی تھی اب 20 ہزار سوڈانی پاونڈ کی ہو چکی ہے۔
SEE ALSO: سات ممالک میں قحط کا خطرہ، اقوام متحدہ کی 100 ملین ڈالر کی امدادپچھلے سال ورلڈ فوڈ پروگرام نے اعلان کیا تھا کہ فنڈز کی قلّت کی وجہ سے ان کے لیے ایک لاکھ سے زیادہ افراد کو خوراک فراہم کرنا ممکن نہیں رہا۔اس علاقے میں زیادہ تر بے گھر سوڈانی آباد ہیں۔
جنوبی سوڈان میں ورلڈ فوڈ پروگرام کی نائب کنٹری ڈائریکٹر ادینکا بادیجو نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ آب و ہوا کے بحران کے ساتھ علاقائی جھگڑے اور لڑائیوں نے لاکھوں لوگوں کو اندرون ملک بے گھر کر دیا ہے۔ زمین کاشت کے قابل نہیں رہی اور لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ خوراک کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ان کا سب سے زیادہ اثر جونگلائی، لیکس، یونٹی اور واراپ ریاستوں پر پڑا ہے اور وہاں لوگ فاقے کر رہے ہیں۔
عواد کا کہنا ہے کہ جنوبی سوڈان "آگ کے ایک ایسے گولے کا حصہ بن چکا ہے ، جس میں آب و ہوا کی تبدیلیاں، تنازعات، عالمی وبائیں اور مہنگائی کی چکّی دنیا کو پیس رہی ہیں اور کروڑوں لوگ فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔