رسائی کے لنکس

افریقہ میں پولیو کیس کی تشخیص: کیا ذمہ دار پاکستان ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

مشرقی افریقہ میں پانچ برس بعد پولیو کا کیس سامنے آنے پر پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ ملاوی میں پولیو وائرس کا جو کیس سامنے آیا ہے، وہ یقینی طور پر گزشتہ کچھ برس سے زیرِ گردش ہو گا کیوں کہ پاکستان میں پولیو کے اس وائرس کا کوئی بھی کیس 2019 کے بعد سامنے نہیں آیا۔

ڈاکٹر فیصل سلطان نے مزید کہا کہ پاکستان 2014 کے بعد سے صحت کے عالمی ضوابط کی مکمل طور پر پابندی کر رہا ہے۔ اس لیے کوئی بھی فرد جو پاکستان سے بیرونِ ملک سفر کرنے جا رہا ہو وہ پولیو کے قطرے پیے بغیر نہیں جا سکتا۔

ملک کے انگریزی اخبار ’ڈان‘ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ملاوی میں حالیہ سامنے آنے والا پولیو کا کیس اگرچہ پاکستان میں موجود ایک قسم سے جوڑا جا رہا ہے البتہ یہ واضح ہونا چاہیے کہ پولیو کی یہ قسم 2019 کے بعد سے پاکستان میں موجود نہیں ہے۔

انہوں یقین کا اظہار کیا کہ اس کا مزید تجزیہ کیا جائے گا تو واضح ہو جائے گا کہ یہ کیس دو سال تک مخفی رہا تھا۔ دنیا میں ایسے کئی علاقے ہیں جہاں پولیو کے خلاف مدافعت موجود نہیں ہے۔ ایسے ہی علاقے پولیو کے پھیلنے کے زیادہ سود مند ثابت ہوئے ہیں۔ ان کے بقول ایسے مخفی کیسز کے سامنے آنے کا مطلب وائرس کی کمزور نگرانی بھی ہے۔

ان کا مؤقف ہے کہ پاکستان میں پولیو کی نگرانی کا نظام دنیا میں سب سے مؤثر ہے۔ اسی لیے ملک پولیو سے نجات کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں کوئی بھی کیس نظر انداز ہونے پر ایک اور مشکل کی جانب بڑھنے کے مترادف ہوگا۔

واضح رہے کہ دو روز قبل مشرقی افریقہ کے ملک ملاوی میں پولیو کا ایک کیس سامنے آیا تھا۔

کیا پاکستان سے پولیو کا خاتمہ ہو گیا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:42 0:00

عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق دارالحکومت لیلونگ وے میں سامنے آنے والا کیس پانچ برس میں افریقہ میں پولیو کا سامنے آنے والا پہلا کیس ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے ایک بیان میں کہا ہے کہ لیبارٹری کے تجزیے کے بعد سامنے آیا ہے کہ ملاوی میں پولیو کی جو قسم سامنے آئی، وہ پہلے پاکستان میں موجود تھی۔ پاکستان اب بھی پولیو وائرس سے متاثرہ ملک ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ پاکستان سے آنے والا ایک کیس ہے۔ جس کی وجہ سے افریقہ کے پولیو فری اسٹیٹس پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق گلوبل پولیس ایریڈیکشن انیشیئٹو کا کہنا ہے کہ ملاوی میں ایک تین سال کی بچی میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ اس بچی میں گزشتہ برس نومبر میں معذوری کی علامات ظاہر ہوئی تھیں۔

اس وائرس کی جنوبی افریقہ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ فار کمیونبل ڈیزیز اور امریکہ کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن میں اس وائرس کا جائزہ لیا گیا اور تصدیق کی گئی کہ یہ ٹائپ ون وائلڈ پولیو وائرس (ڈبلیو پی وی ون) ہے۔

گلوبل پولیو ایریڈیکشن انیشیئٹو نے پولیو سے متاثرہ دو ممالک پاکستان اور افغانستان کے علاوہ دنیا کے کسی اور خطے میں ڈبلیو پی وی ون کا کیس سامنے پر شدید خدشات ظاہر کیے ہیں اور ایک بیان میں کہا ہے کہ اس سے پولیو کے قطرے پلانے کی سرگرمیوں کو اہمیت دینے کی وضاحت ہوتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے افریقہ کے کوآرڈینیٹر کا کہنا تھا کہ افریقہ میں آخری بار پولیو وائرس کا کیس 2016 میں شمالی نائجیریا میں سامنے آیا تھا۔

پولیو کے خاتمے کے لیے کوشاں 77 سالہ حور بی بی
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:35 0:00

انہوں نے واضح کیا کہ پولیو کا کیس سامنے آنا اہم معاملہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او ملاوی کی ہر ممکن مدد کرے گا۔

پولیو ایریڈیکشن کے ڈائریکٹر حامد جعفری نے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ملاوی میں پولیو کی جو قسم سامنے آئی ہے، اسی قسم کے وائرس سے متاثرہ ایک بچے کی پاکستان میں اکتوبر 2019 میں تصدیق ہوئی تھی۔ پاکستان میں یہ کیس صوبہ سندھ میں سامنے آیا تھا۔

واضح رہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں سے بین الاقومی سفر کرنے والوں کو پولیو سرٹیفیکٹ ساتھ رکھنا ضروری ہے۔

اس رپورٹ میں معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG