پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے جمعرات کو اغواء کیے گئے آٹھ سرکاری ملازمین کی تلاش کی کوششیں جاری ہیں۔
حکام کے مطابق وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں کی ترقی کے لیے قائم ادارے ’فاٹا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی‘ یعنی ’ایف ڈی اے‘ کے آٹھ اہلکاروں کو نامعلوم افراد نے اغوا کیا۔ جن اہلکاروں کو اغوا کیا گیا اُن میں ایف ڈی اے کے افسران اور انجینئیر شامل ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے گورنر کے اقبال ظفرجھگڑا متعلقہ سیکورٹی اداروں اور پولیٹیکل انتظامیہ کو مغوی اہلکاروں کی بحفاظت بازیابی کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی ہے۔
جمعہ کو گورنر ہاؤس سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ اس ضمن میں کوئی کسر باقی نہ رکھی جائے۔ انہوں نے متعلقہ حکام کو یہ ہدایت بھی کی کہ فاٹا میں کام کرنے والے ملازمین اور سرکاری اہلکاروں کی حفاظت اور ان کی فول پروف سیکورٹی کو ہرممکن یقینی بنایا جائے۔
مقامی عہدیداروں اور قبائلی ذرائع کے مطابق ’ایف ڈی اے‘ کے عہدیدار ترقیاتی کاموں کا جائزہ لینے کے لیے علاقے میں گئے ہوئے تھے اور اُنھیں تحصیل وانا میں طوئی خولہ کے مقام سے اغوا کیا گیا۔
اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی سکیورٹی فورسز کے اہلکار موقع پر پہنچ گئے اور اُنھوں نے سرکاری اہلکاروں کی تلاش کا کام شروع کر دیا۔
جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے بعد علاقے میں ترقیاتی کام جاری ہیں جن میں سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے علاوہ چھوٹے ڈیم بھی شامل ہیں۔
اس قبائلی علاقے سے ماضی میں سرکاری اہلکاروں کو اغوا کیا جاتا رہا ہے۔
اگرچہ جنوبی وزیرستان میں 2009ء میں کیے جانے والے فوجی آپریشن کے بعد یہاں امن و امان کی صورت حال میں بہتری آئی ہے لیکن اب بھی یہاں تشدد کے اکا دکا واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
جنوبی وزیرستان سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں اب بھی فوجی آپریشن ’ضرب عضب‘ جاری ہے اور فوج نے حال ہی میں اس آپریشن کے حتمی مرحلے کا آغاز کیا تھا۔
حکام کے مطابق شمالی وزیرستان کے پہاڑی علاقے شوال میں زمینی فوج کی پیش قدمی جاری ہے۔