بھارت میں نریندر مودی حکومت کی پالیسیوں کے ناقد معروف نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' کے بانی ڈائریکٹر ز پرنے رائے ان کی اہلیہ رادھیکا رائے اور سینئر ایگزیکٹو ایڈیٹر رویش کمار نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔اس کے بعد ان قیاس آرائیوں میں تیزی آگئی ہے کہ یہ نشریاتی ادارہ جلد ہی دنیا کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک ۔ اڈانی گروپ کے مالک گوتم اڈانی کی ملکیت میں چلا جائے گا۔
البتہ پرنے اور رادھیکا کے پاس اب بھی کمپنی کے پروموٹر کی حیثیت سے 32 اعشاریہ 26 فی صد شیئرز موجود ہیں اور انہوں نے بورڈ آف نیوز چینل سے استعفیٰ نہیں دیا ہے۔
اڈانی گروپ کے مالک گوتم اڈانی نے 23 اگست کو این ڈی ٹی وی لمیٹڈ کے 29 اعشاریہ 18 فی صد شیئرز خرید لیے تھے اور اعلان کیا تھا کہ وہ کمپنی کے مزید 26 فی صد شیئرز خرید نے کے لیے اوپن آفر دیں گے۔
انہوں نے 22 نومبر کو اوپن آفر دی جو پانچ دسمبر تک کھلی رہے گی، اس دوران اگر وہ 26 فی صد شیئرز حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کے پاس مجموعی طور پر کمپنی کے 55 اعشاریہ 18 فی صد شیئرز آجائیں گے اور وہ این ڈی ٹی وی کی انتظامیہ پر اپنا کنٹرول حاصل کرلیں گے۔
تاہم اگر وہ 50 فی صد سے زائد شیئرز حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں تو ان کے پاس دیگر ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کے شیئرز حاصل کرنے کا متبادل رہے گا۔
SEE ALSO: بھارت: غیر جانب دار میڈیا گروپ کو خریدنے کی کوشش اور پریس کی آزادی پر سوالاتقبل ازیں جب اگست میں یہ خبر آئی تھی کہ گوتم اڈانی این ڈی ٹی وی خرید رہے ہیں تو صحافتی حلقوں میں تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ ''این ڈی ٹی وی پر اڈانی کا قبضہ دراصل بھارت جیسی بڑی جمہوریت میں پریس کی آزاد آواز کو دبانے کی کوشش ہے۔''
گوتم اڈانی نے جمعے کو اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ این ڈی ٹی وی کی ملکیت کے حصول کو تجارتی مواقع سے زیادہ ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر حکومت نے کچھ غلط کیا ہے تو میڈیا اس پر تنقید کرے لیکن اگر حکومت کوئی صحیح کام کرے تو میڈیا میں اتنی جرات ہونی چاہیے کہ وہ اس کی حمایت کرے۔
ان کے بقول بھارت میں کوئی میڈیا ادارہ ایسا نہیں ہے جس کا موازنہ'فنانشل ٹائمز' یا 'الجزیرہ' جیسے نشریاتی ادارے سے کیا جا سکے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آپ ایک ایسا آزاد میڈیا ادارہ بنانے کی حمایت کیوں نہیں کرسکتے جو بھارت کے باہر بھی قدم رکھ سکے۔
انہوں نے کہا کہ ''وہ این ڈی ٹی وی کو ایک عالمی میڈیا گروپ بنانا چاہتے ہیں اور انہوں نے پرنے رائے سے کہا ہے کہ وہ اس کے چیئرپرسن بنیں۔'' اس معاملے پر پرنے رائے کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
واضح رہے کہ این ڈی ٹی وی ایک ایسا نشریاتی ادارہ ہے جو حکومت کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتا ہے۔ اس کی اس پالیسی کی وجہ سے ہی اس کو دیکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ اس کو پسند کرنے والے متعدد افراد نے ٹوئٹر پر اس کی حمایت کی اور گوتم اڈانی کی جانب سے اسے خریدنے کی مخالفت کی۔
حکومتی پالیسیوں پر سب سے سخت تنقید اس کے معروف اینکر پرسن رویش کمار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس تنقید کی وجہ سے حکومت نے ان کا بائیکاٹ کر رکھا ہےاور اس وجہ سے نہ حکومت اور نہ ہی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا کوئی عہدیدار ان کے پروگرام میں آتا ہے۔
تجزیہ کاروں نے گوتم اڈانی کی جانب سے این ڈی ٹی وی کو خریدنے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اختلافی آوازوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
سینئر تجزیہ کار اُرملیش کا کہنا ہے کہ یہ بہت افسوس ناک ہے۔ حکومت نے نسبتاً ایک آزاد میڈیا ادارے کو بھی برداشت نہیں کیا اور اپنے پسندیدہ کارپوریٹ ادارے کو اسے خریدنے کے لیے کہہ دیا۔ میڈیا کے لیے یہ حیرت ناک ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں مین اسٹریم میڈیا بچا نہیں ہے۔ اس وقت جو میڈیا ہے، آزادانہ صحافت میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ان کے خیال میں یہ واقعہ بھارت جیسے بڑے ملک میں جمہوریت کی تصویر پیش کرتا ہے کہ یہاں کیسی جمہوریت ہے۔
SEE ALSO: بھارت کا آلۂ کار ہونے کا الزام؛ کشمیر میں خوف زدہ صحافی مستعفی ہونے لگےدیگر تجزیہ کاروں نے کئی میڈیا ہاؤسز کے کارپوریٹ اداروں کی ملکیت میں چلے جانے کو انتہائی افسوس ناک قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اب نشریاتی ادارے صحافت کرنے کے بجائے اپنے مالکان کے مفادات کے لیے ماحول سازی کرتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق 2014 کے بعد سے بھارت میں پریس کی آزادی متاثر ہوئی ہے۔حکومت پر تنقید کرنے کی وجہ سے کئی صحافیوں کے خلاف کارروائی بھی کی گئی ہے جب کہ کئی صحافی جیلوں میں بھی بند ہیں۔اس کے علاوہ کئی صحافیوں پر انتہائی سخت قانون یو اے پی اے لگا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان کی ضمانت منظور نہیں ہو رہی ہے۔
رپورٹس کے مطابق پریس کی آزادی سے متعلق عالمی درجہ بندی میں بھارت کافی نیچے آگیا ہے۔ صحافیوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم ’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ کے مطابق پریس کی آزادی کے حوالے سے 180 ملکوں کی درجہ بندی میں بھارت 150 ویں نمبر پر آگیا ہے۔
دوسری جانب حکومت پریس کی آواز دبانے کے الزامات کی تردید کرتی ہے۔حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ پریس کی آزادی کی حمایت کرتی ہے اور اسے دبانے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔
گوتم اڈانی کون ہیں؟
گوتم اڈانی گجرات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد کپڑوں کے تاجر تھے۔ انہیں1998 میں اغوا کر لیا گیا تھا لیکن تاوان کی ادائیگی کے بغیر ہی انہیں چھوڑ دیا گیا تھا۔ 2008 میں ممبئی پر ہونے والے حملے کے وقت وہ ہوٹل تاج میں تھے جہاں سے انہیں بحفاظت نکالا گیا تھا۔
ساٹھ سالہ گوتم اڈانی کم عمری میں ہی بھارت کے تجارتی مرکز ممبئی چلے گئے تھے جہاں انہوں نے ایک کمپنی میں ہیرے کی صفائی کا کام کیا۔ 1981 میں ان کے بھائی نے احمد آباد میں پلاسٹک بنانے کی کمپنی قائم کی جس کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی۔ اس کے بعد سے ان کے لیے بین الاقوامی تجارت کے دروازے کھل گئے۔
انہوں نے 1985 میں اپنی تجارت شروع کی جو کئی شعبوں میں پھیل گئی۔ اس وقت وہ بندرگاہ، ایئرپورٹ، ہیرا، میٹل ، کپڑا، زرعی اشیا اور بجلی وغیرہ کے شعبوں میں تجارت کر رہے ہیں۔ ان کی کمپنی کا نام ’اڈانی گروپ‘ ہے جس کے وہ چیئرمین ہیں۔
ایک روز قبل انہوں نے ممبئی کی کچی بستی ’دھاراوی‘ کی تعمیر نو کا ٹھیکہ حاصل کیا ہے۔
فروری 2022 میں وہ بھارت کے امیر ترین افراد میں شامل کاروباری شخصیت مکیش امبانی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ایشیا کے امیر ترین شخص بن گئے تھے۔اگست 2022 میں انہیں دنیا کا تیسرا امیر ترین شخص قرار دیا گیا تھا۔
ان کی تجارت آسٹریلیا سمیت کئی ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے جب کہ بھارت میں کئی ریاستوں میں ان کی کمپنی کام کر رہی ہے۔
SEE ALSO: بھارت کے گوتم اڈانی دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص بن گئےانہوں نے 2020 میں کرونا کی وبا سے لڑنے کے لیے وزیر اعظم کیئر فنڈ میں 100 کروڑ روپے دیے تھے جب کہ گجرات سی ایم ریلیف فنڈ میں انہوں نے ایک کروڑ روپے عطیہ کیے تھے۔
گوتم اڈانی کو وزیر اعظم نریندر مودی کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔ 2001 میں مودی کے گجرات کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد اڈانی گروپ ترقی کے منازل طے کرنے لگا۔
2014 کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے بعد مودی گجرات سے دہلی گوتم اڈانی کے نجی طیارے سے آئے۔ اس سے قبل انتخابی مہم میں بھی انہوں نے ان کے طیارے استعمال کیے تھے۔
بھارت میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی نریندر مودی پر گوتم اڈانی اور مکیش امبانی کی حمایت کرنے اور ان کو تجارتی فائدہ پہنچانے کے لیے ملکی قوانین و ضوابط میں ترمیم کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔
گوتم اڈانی نے مودی سے قربت کے الزام کے پیشِ نظر حزب اختلاف کے سیاسی رہنماؤں سے بھی اپنے تعلقات بڑھانا شروع کردیے ہیں، جس میں مغربی بنگال کی وزیرِاعلیٰ ممتا بنرجی اور راجستھان کے وزیرِاعلیٰ اشوک گہلوت قابل ذکر ہیں۔