پاکستان میں گزشتہ ایک سال سے جاری سیاسی بحران اب انتشار اور تشدد کی سیاست کی شکل اختیار کر چکا ہے جس نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات کے انعقاد پر بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کے معاملے پر کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)کے کارکنوں کے خلاف مزید مقدمات قائم ہو چکے ہیں اور ایک نئے مقدمے میں عمران خان کو بھی نامزد کیا جا چکا ہے۔
لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک کے باہر پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے بنائے گئے حفاظتی حصار کے باعث قانون نافذ کرنے والے ادارے تاحال سابق وزیر اعظم کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔البتہ حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد کے لیے عمران خان کو مجبور کرنا چاہتی ہے۔
موجودہ صورتِ حال میں پی ٹی آئی اور حکومت ایک فریق کے طور پر سامنے آئے ہیں اور دونوں ہی ایک دوسرے پر اشتعال انگیزی کے الزامات لگا رہے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کا آپس میں بات چیت نہ کرنا مسائل کی بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے صورتِ حال گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں کشیدہ سیاسی صورتِ حال نے غیر جمہوری قوتوں کو اقتدار سنبھالنے کا موقع دیا جسے دیکھتے ہوئے سیاسی رہنماؤں کا دانش کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
SEE ALSO: زمان پارک آپریشن: انتظامیہ سے معاملات پر اتفاق ہو گیا, پی ٹی آئی کا دعویٰتجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ سیاسی صورتِ حال اس نہج کو پہنچ چکی ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ان کے بقول اس وقت جمہوری، سیاسی اور پارلیمانی روایات اپنی گراوٹ پر ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی بدترین شکل ہے کہ سیاست دان ایک دوسرے سے بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔عمران خان کہتے ہیں کہ وہ مرنا پسند کریں گے لیکن حکومتی جماعتوں سے بات نہیں کریں گے، تو ایسے میں سیاست کیسے چل سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان اس وقت مقبول ضرور ہیں لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ قانون اور عدلیہ کو کسی کی خواہشات کا غلام بنا دیا جائے۔
'سیاسی نظام بند گلی میں داخل ہو چکا'
سلیم بخاری کے مطابق ملکی سیاسی صورتِ حال تیزی سے اُس طرف جارہی ہے جب ماضی میں اس طرح کی صورتِ حال میں مارشل لاء لگتے رہے ہیں۔
تجزیہ کار مظہر عباس کے خیال میں عمران خان کی گرفتاری کی کوشش کے نتیجے میں پیدا شدہ صورتِ حال حکومت کے قابو سے باہر ہوگئی ہے اور غیر یقینی کی یہ صورتِ حال عام انتخابات کے انعقاد پر سوال کھڑے کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی سیاسی رہنما گرفتاری سے نہیں گھبراتا لیکن گرفتاری میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا عمل عمران خان کے لیے سیاسی طور پر اچھا ثابت نہیں ہوگا۔
تجزیہ کار رسول بخش رئیس سمجھتے ہیں کہ اس وقت ملکی سیاسی نظام بند گلی میں داخل ہوچکا ہے اور کوئی راستہ سامنے دکھائی نہیں دیتا ہے۔
ان کے بقول جو قوتیں موجودہ سیاسی بحران کے حل کا راستہ نکال سکتی ہیں وہ بھی چاہتی ہیں کہ عمران خان کو اس حد تک کمزور کردیا جائے کہ وہ حکومتی جماعتوں کا مقابلہ نہ کرسکے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے رسول بخش رئیس نے کہا کہ پاکستان کی سیاست میں عوامی نمائندوں اور مقتدر قوتوں میں ہمیشہ کش مکش رہی ہے لیکن یہ بدقسمتی ہے کچھ سیاسی جماعتیں موقع پرستی کو دیکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ سے مل جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ سیاسی کش مکش میں اداروں پر جس طرح انگلیاں اٹھائی گئیں اس کی مثال نہیں ملتی جس سے اداروں کا وقار بری طرح مجروح ہوا ہے۔
رسول بخش رئیس کا خیال ہے کہ حکومت اس وقت انتخابات سے دور رہنا چاہتی ہے کیوں کہ انتخابات کے نتائج اس کے حق میں دکھائی نہیں دیتےجب کہ عمران خان ایسے انتخابات چاہتے ہیں جس کے نتائج ان کے حق میں آئیں بصورتِ دیگر وہ انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے۔
'حکومت کے پاس کوئی واضح حکمتِ عملی نہیں'
صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں حکومت کی کوئی واضح حکمتِ عملی نہیں ہے۔ وہ موجودہ صورتِ حال میں خوف زدہ بھی ہے لیکن بہادری کا مظاہرہ بھی کرنا چاہتی ہے۔
ان کے بقول مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کا وطن واپس نہ آنا بھی حکومت کو کمزور صورت میں ڈال رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف کی واپسی تک پانی سر سے گزر چکا ہوگا۔
مل بیٹھ مسائل کا حل نکالنے کے سوال پر مظہر عباس نے کہا کہ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کا رویہ غیر ذمہ دارانہ رہا ہے۔ ان کے بقول عمران خان قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں تو انہیں ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کرنی چاہیے اور دوسری طرف اگر کارکنوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا تھا تو حکومت کو طاقت کے استعمال کے بجائے عدالت سے رجوع کرنا چاہیےتھا۔
واضح رہے کہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو عدالت میں پیش کرنے کے عدالتی حکم کی تعمیل کے دوران رواں ہفتے پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس کے درمیان دو روز تک جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا تھا۔
اس صورتِ حال کو قابو میں لانے کے لیے مظہر عباس کے خیال میں صدر ڈاکٹر عار ف علوی، وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو مل بیٹھ کر کوئی قابلِ عمل حل نکالنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کی صورت میں صدر علوی پی ٹی آئی جب کہ وزیر اعظم شہباز شریف حکومتی جماعتوں کی نمائندگی کرسکتے ہیں اور آرمی چیف اداروں کی جانب سے کردار ادا کرسکتے ہیں۔