جاپان کا دوسرا سب سے بڑا شہر اوساکا ان دنوں کووڈ-19 کی ایک نئی اور بڑی لہر کی لپیٹ میں ہے جس سے اسپتالوں میں دستیاب بستر اور وینٹی لیٹر کم پڑتے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ صورت حال برقرار رہی تو صحت کا نظام اس بوجھ کو مزید نہیں سہار سکے گا۔
جاپان میں طبی ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ اگر ٹوکیو میں اولمپکس کرائے گئے تو کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
جاپان کے اس مغربی علاقے کی آبادی تقریباً 90 لاکھ ہے اور ان دنوں اس علاقے کو کرونا وائرس کی چوتھی لہر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور ملک میں اس وبا سے ہونے والی ہلاکتوں کے ایک تہائی کا تعلق اسی خطے سے ہے۔
اوساکا میں قائم کائنڈے یونیورسٹی ہاسپٹل کے ڈائریکٹر یوجی توہدا کہتے ہیں کہ کرونا کی تیز رفتاری سے پھیلنے والی برطانوی قسم اور اس سے مقابلے میں لاپرواہی کی وجہ سے اس کے پھیلاؤ اور مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔
جمعرات کے روز اوساکا میں تقریباً چار ہزار پازیٹو کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔
اوساکا میں اس وقت 13770 مریض اسپتالوں میں داخل ہیں جو کل مریضوں کا 14 فی صد ہیں جب کہ ٹوکیو کے اسپتالوں میں 37 فی صد مریض اسپتالوں میں اپنا علاج کرا رہے ہیں۔
ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق، جمعرات کو اوساکا کے اسپتالوں میں کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص 348 بستروں میں سے 96 فی صد بھرے ہوئے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا کی نئی اقسام نوجوانوں کو بھی تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔ اوساکا میڈیکل اینڈ فارما سیوٹیکل یونیورسٹی ہاسپٹل کے ڈائریکٹر توشاکی میامی کا کہنا ہے کہ بہت سے نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کرونا وائرس سے محفوظ ہیں۔ لیکن ان کے بقول صورتحال اب ایسی نہیں ہے۔ یہ وائرس ان کے لیے بھی اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کسی دوسرے کے لیے۔
ریجنل گورنمنٹ ایمپلائز یونین کے سربراہ یاسونوری کوماتسو کا کہنا ہے کہ نرسوں کے لیے بھی حالات تشویش ناک ہیں، جنہیں وبا شروع ہونے کے بعد سے ایک ہفتے میں ایک سو گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ وقت کے لیے مریضوں کے ساتھ کام کرنا پڑ رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب آسٹریلیا میں، جہاں عالمی وبا کے کیسز کی تعداد نسبتاً کم ہے، حکومت پر یہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ ویکسین لگانے کی رفتار تیز کرنے کے لیے ان لوگوں کے لیے نقد انعام مقرر کرے جو اس سلسلے میں تعاون کریں گے۔
پبلک ہیلتھ اور اشتہاری مہم کے ماہرین نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے پروگرام شروع کرے جن میں ویکسین لگوانے والوں کے لیے لاٹری ٹکٹ اور نقد انعام رکھے جائیں تاکہ لوگ اس جانب متوجہ ہو سکیں۔ آسٹریلیا میں ویکسین لگوانے کی رفتار کافی سست ہے۔
آسڑیلیا کے دو اخبارات کی جانب سے کرائی گئی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ان کے سوالات کا جواب دینے والوں میں سے ایک تہائی ویکسین لگوانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ سروے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آسٹریلیا کے بہت سے باشندوں کا خیال ہے کہ ملک کی سرحدیں بیرونی دنیا کے لیے بند ہیں اس لیے ویکسین لگوانے میں جلدی کی ضرورت نہیں ہے۔
اس وقت آسٹریلیا میں روزانہ پانچ لاکھ کے لگ بھگ افراد کو ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ اس رفتار کے پیش نظر پوری آبادی کو ویکسین لگانے کا سلسلہ اگلے سال اکتوبر تک جاری رکھنا پڑے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین لگوانے کے لیے ترغیبات امریکہ سمیت کئی دوسرے ملک بھی دے رہے ہیں، جس میں لاٹری کے ٹکٹ سمیت، ڈونٹ اور بیئر کا کین شامل ہے۔