بھارتی کشمیر میں احتجاجی ہڑتال اور مظاہرے؛ سرینگر میں کرفیو

فائل

'مشترکہ مزاحمتی قیادت' کہلائے جانے والے اس اتحاد نے بھارتی حفاظتی دستوں پر متنازعہ کشمیر کے نئی دہلی کے زیرِ کنٹرول علاقے میں جاری شورش کو دبانے کی مہم کے دوران انسانی حقوق کی بے دریغ پامالیوں کا ارتکاب کرنے کا الزام عائد کیا ہے؛ جب کہ بھارتی عہدیدار اس الزام کی سختی کے ساتھ تردید کرتے ہیں

حقوقِ بشر کے عالمی دن کے موقعے پر نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں عام ہڑتال کی گئی اور کئی مقامات پر مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے احتجاجی مظاہرے کئے۔

تاہم، مظاہروں اور ممکنہ تشدد کو روکنے کے لئے مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں نے سرینگر کے کئی علاقوں، جن میں سیاسی لحاظ سے انتہائی حساس پندرہ لاکھ سے زائد آبادی والے شہر کا پُرانا حصہ خاص طور پر شامل ہے، کرفیو جیسی پابندیاں عائد کیں۔

سہ پہر کو قوم پرست 'جموں کشمیر لبریشن فرنٹ' کے چیئرمین، محمد یاسین ملک کی قیادت میں سیاسی کارکن سرینگر کے مائسمہ علاقے سے شہر کے گپکار روڈ پر واقع اقوامِ متحدہ کے فوجی مبصرین برائے بھارت و پاکستان کے صدر دفاتر کی طرف مارچ کرنے لگے تو پولیس نے ان کا راستہ روک لیا اور پھر ملک اور ان کے کئی ساتھیوں کو حراست میں لے لیا۔

ہڑتال اور مظاہروں کے لئے اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے قائدین کے ایک اتحاد نے کی تھی۔ 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' کہلائے جانے والے اس اتحاد نے بھارتی حفاظتی دستوں پر متنازعہ کشمیر کے نئی دہلی کے زیرِ کنٹرول علاقے میں جاری شورش کو دبانے کی مہم کے دوران انسانی حقوق کی بے دریغ پامالیوں کا ارتکاب کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

اگرچہ بھارتی عہدیدار اس الزام کی سختی کے ساتھ تردید کرتے ہیں، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' اور 'ایشیا واچ' نے اپنی حالیہ رپورٹوں میں علاقے میں پائی جانے والی حقوقِ بشر کی مجموعی صورتِ حال پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے، نئی دہلی پر اسے بہتر بنانے پر زور دیا ہے۔

ان تنظیموں نے بھارتی حکومت سے، خاص طور پر آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ نامی قانون کو واپس لینے کا مطالبہ دہرایا ہے۔ اس قانون کو ریاست میں 27 سال پہلے مقامی مسلمانوں کی طرف سے مسلح بغاوت کے آغاز پر لاگو کیا گیا تھا۔ حقوقِ بشر کی ان تنظیموں اور خود بھارت میں سرگرم انسانی حقوق کارکنوں نے الزام لگایا ہے کہ انسانی حقوق کے مرتکب فوجی سزا سے بچنے کے لئے اس قانونی شق کی آڑ لیتے چلے آئے ہیں۔

بھارتی عہدیدار کہتے ہیں کہ اس قانون کے باوجود درجنوں ایسے فوجیوں اور دوسرے حفاظتی اہلکاروں کو سزائیں دی گئی ہیں، جنہوں نے شورش سے نمنٹنے کے دوران اپنے اختیارات سے تجاوز کیا تھا۔ اِن عہدیداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شکایات کی فوری شنوائی ہوتی ہے اور اس حوالے سے صورتِ حال پہلے کے مقابلے میں خاصی بہتر ہے۔

اس دعوے پر اپنے ردِ عمل میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور 'جموں کشمیر کولیشن آف سِول سوسائٹیز' کے پروگرام کوآرڈینیٹر خرم پرویز نے کہا ہے کہ"جب حکومتِ بھارت یہ کہتی ہے کہ صورتِ حال پہلے کے مقابلے میں بہتر ہے تو اصل میں وہ اس تناظر میں بات کرتی ہے کہ اس کا کشمیر کے حالات پر مکمل کنٹرول ہے۔ دراصل یہ کنٹرول لوگوں کے انسانی حقوق سلب کرکے ہی ممکن بنا ہے۔ اگر آپ زمینی صورت حال دیکھیں گے تو انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے اس میں کوئی فرق نہیں آیا ہے"۔

انسانی حقوق کا عالمی دن ہر سال 10 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ 69 سال پہلے آج ہی کے دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کا عالمی منشور منظور کیا تھا۔

یہ منشور 30 دفعات پر مشتمل ہے جو بلا لحاظِ مذہب، عقیدہ، رنگ و نسل، قوم و ملک کے انسانی زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی طور پر حقوق کا دفاع کرتی ہیں۔