بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرینگر کے گنجان آبادی والے علاقے نوہٹہ میں واقع جامع مسجد کا ایک ملازم صبح کے لگ بھگ 11 بجے اس کے صدر دروازے کا تالہ کھولتا ہے۔ البتہ ایک جمعے کو مقامی تھانے کی پولیس وہاں پہنچی اور منتظمین کو مطلع کیا کہ مسجد میں جمعے کا اجتماع کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ہی مسجد کے بیرونی احاطے کے اُس دروازے پر جو نوہٹہ چوک کی طرف کھلتا ہے تالہ لگا دیا جاتا ہے۔ اگلے ہی لمحے مسلح سیکیورٹی اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد کو عبادت گاہ کے بیرونی دروازوں کے باہر تعینات کر دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ کئی ماہ سے ہر جمعے کو دہرایا جا رہا ہے۔
سرکردہ سیاسی اور مذہبی رہنما اور انجمنِ اوقاف جامع مسجد کے سربراہ میر واعظ محمد عمر فاروق گزشتہ 28 ماہ سے اپنے گھر میں نظر بند ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج 44واں جمعہ ہے جب جامع مسجد میں ہفتہ وار اجتماع منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کا یہ دعویٰ بالکل غلط اور گمراہ کن ہے کہ کشمیری مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ سیاسی حقوق کے ساتھ ساتھ ہمارے مذہبی حقوق کو بھی پامال کیا جا رہا ہے۔
چھ برس میں 155 بار نمازِ جمعہ پر پابندی
انجمنِ اوقاف جامع مسجد کی طرف سے جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق سال 2021 میں اب تک 44 بار، 2020 میں 21 بار، 2019 میں 26 بار، 2018 میں 16 بار، 2017 میں 18 بار اور 2016 میں 30 بار جمعے کو جامع مسجد میں اجتماعات کے انعقاد پر پابندی عائد کی گئی۔
انجمن کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس یہ بہانہ بنایا گیا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے جامع مسجد میں بڑے اجتماعات منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ سلسلہ رواں برس اگست تک جاری رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگست میں ایک دو مرتبہ مسجد میں جمعے کی نماز وائرس سے بچاؤ کے لیے ضروری قرار دی گئی احتیاطی تدابیر اور ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے ادا کی گئی لیکن پھر مسجد کو حکام نے ایک مرتبہ پھر مقفل کر دیا اور اس کے لیے یہ منطق پیش کی گئی کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر جموں و کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ چند ہفتے بعد کشمیر کے ساتھ ساتھ جموں کی تمام چھوٹی بڑی مساجد، خانقاہوں اور دوسری عبادت گاہوں میں اجتماعات منعقد کرنے اور جمعے کی نماز ادا کرنے کی اجازت دی گئی۔ البتہ جامع مسجد میں سرگرمیوں پر پابندی عائد ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انجمنِ اوقاف جامع مسجد کے ترجمان کے مطابق دو بار جمعے کی نماز کے لیے پہلی اذان بھی دی گئی البتہ پولیس افسران فوری طور پر آ گئے اور مطلع کیا کہ مسجد میں اجتماع نہیں ہو سکتا۔ جب ان سے تحریری حکم نامے پیش کرنے کے لیے کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ اعلیٰ پولیس حکام کے احکامات پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔
’جامع مسجد میں جمعے کے اجتماع کے بعد پر تشدد واقعات ہوتے ہیں‘
حکومت جامع مسجد میں جمعے کی نماز پر عائد پابندی کے سلسلے میں مسلسل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ تاہم ایک اعلیٰ پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جامع مسجد چوں کہ مسلمانوں کی ایک بڑی عبادت گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں کی مرکز رہی ہے۔ بھارت مخالف عناصر اور استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی سیاسی جماعتوں اور قائدین نے اسے ہمیشہ اپنی بات لوگوں تک پہنچانےکے لیے استعمال کیا ہے۔
پولیس افسر نے کہا کہ جامع مسجد میں جمعے کے اجتماعات کے فوری بعد ہی علاقے میں پر تشدد واقعات پیش آتے ہیں۔ مسجد سے نکلنے والے نوجوان پولیس اور دوسرے حفاظتی دستوں پر پتھراؤ کرتے ہیں۔
انہوں نے یاد دلایا کہ جون 2018 میں شبِ قدر کے موقعے پر جامع مسجد کے باہر تعینات ایک پولیس افسر محمد ایوب پنڈت کو ایک ہجوم نے تشدد کرکے ہلاک کر دیا تھا۔
اس افسر نے بتایا کہ لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانا پولیس کی ذمہ داری ہے۔ جامع مسجد میں جمعے کے اجتماعات کی اجازت نہ دینے کے فیصلے کو اسی پس نظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
پولیس افسر کی موت کے حوالے سے میر واعظ عمر فاروق کہتے ہیں کہ انہوں نے اس واقعے کی شدید مذمت کی تھی حالاں کہ اس میں مسجد میں منعقد کیے گئے اجتماع میں شامل ہونے والا کوئی شخص ملوث نہیں تھا اور نہ ان کی جماعت کا کوئی رکن اس میں شریک تھا۔
انہوں نے کہا کہ جامع مسجد کے باہر اور آس پاس پیش آنے والے پُر تشدد واقعات کو مسجد، اس کی انتظامیہ یا وہاں عبادت کے لیے آنے والے لوگوں سے جوڑنا یا انہیں اس کا ذمہ دار قرار دینا سراسر زیادتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو کبھی تشدد کو روکنے کے نام پر اور کبھی کرونا وائرس کا بہانہ بنا کر مذہبی فرائض کی انجام دہی اور اجتماعی عبادت سے روکا جا رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کشمیر کے مفتیٴ اعظم ناصر الاسلام نے مرکزی عبادت گاہ کو نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے بند رکھنے کے حکومتی رویے کو افسوسناک قرار دیا۔
کشمیری علما اور ائمہ مساجد کی تنظیم متحدہ مجلسِ علما نے 13 دسمبر کو سرینگر میں منعقدہ ایک اجلاس کے بعد اپنے بیان میں حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ جامع مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کی اجازت دے اور میر واعظ عمر فاروق کی نظر بندی کو ختم کرکے انہیں مذہبی فرائض انجام دینے کا موقع فراہم کیا جائے۔
میر واعظ اپنی خاندانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے تقریباََ 600 برس پہلے تعمیر کی گئی جامع مسجد میں جمعے کی نماز کی ادائیگی سے پہلے وعظ و تبلیغ کرتے تھے اور سیاسی صورتِ حال، سماجی، اقتصادی مسائل اور بعض مواقع پر مسلمانوں کو درپیش عمومی معاملات پر خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ البتہ پانچ اگست 2019 سے یہ سلسلہ رُکا ہوا ہے۔ پانچ اگست 2019 کو بھارت نے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی خود مختاری کو ختم کرکے ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا اور پھر ان دونوں حصوں کو براہِ راست مرکز کے زیرِ کنٹرول علاقے قرار دیا تھا۔
میر واعظ عمر فاروق نے بتایا کہ انہوں نے پانچ اگست 2019 سے 24 دسمبر تک کا پورا عرصہ نظر بندی میں گزارا ہے۔ اس سے قبل وہ 2018 میں 120 دن، 2017 میں 200 دن اور 2016 میں 78 دن گھر پر نظر بند رہے تھے۔ سیاست کو ایک طرف رکھیں تو بھی ان کو مذہبی فرائض انجام دینے سے بھی روکا گیا ہے۔
کشمیر میں کوئی نظر بند نہیں ہے: بھارتی حکومت کا دعویٰ
بھارت کے امورِ داخلہ کے وزیرِ مملکت جی کرشنا ریڈی نے چند ماہ قبل نئی دہلی میں پارلیمان کو بتایا تھا کہ پانچ اگست 2019 کے بعد جموں و کشمیر میں حراست میں لیے گیے بیشتر افراد کو رہا کیا جا چکا ہے البتہ کوئی بھی شخص اب نظر بند نہیں ہے۔
دوسری جانب میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ اس دعوے میں کہاں تک صداقت ہے اس کا اندازہ آپ کو اس بات سے ہو گا کہ گزشتہ 28 ماہ میں ان کو صرف تین بار گھر سے باہر جانے کی اجازت دی گئی اور اس دوران پولیس ان کے ہمراہ تھی۔
کشمیری مسلمانوں بالخصوص جامع مسجد کے آس پاس رہائش پذیر شہریوں اور میر واعظ عمر فاروق کے حامیوں میں جامع مسجد میں جمعے کی نماز کی ادائیگی پر پابندی کے خلاف شدید غم و غصہ ہے۔
ایک شہری خورشید احمد سوداگر نے بتایا کہ بھارت کی موجودہ حکومت اور مقامی انتظامیہ کشمیری مسلمانوں کو دیوار سے لگا رہی ہے۔ لوگوں بالخصوص نوجوانوں میں غم و غصہ عروج پر ہے۔ ایک لاوا پک رہا ہے جو کسی بھی وقت ابل سکتا ہے۔
یک اور شہری محمد شعبان ٹنکی نے استفسار کیا کہ کیا کشمیر میں موتی رام کا دورِ حکومت لوٹ آیا ہے؟
موتی رام سکھ دورِ حکومت میں کشمیر کے گورنر تھے اور انہوں نے 1819 میں جامع مسجد سرینگر میں تالا لگوایا تھا جس کے بعد یہاں عبادات پر پابندی 21 سال تک جاری رہی تھی۔
جامع مسجد کے علاقے میں رہائش پذیر لوگوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ اس تاریخی مسجد میں عام دنوں میں نماز خاموشی کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور عبادت گاہ میں داخل ہونے اور باہر آنےکے لیے اس کا مغربی دروازہ استعمال کرتے ہیں جو نسبتاً چھوٹا ہے اور پولیس کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پانچ وقت کی نماز کے لیے اذان تو دی جاتی ہے البتہ اس کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال نہیں کیا جاتا تاکہ پولیس نہ سن لے اور آ کر پریشانی کا سبب بنے۔
متحدہ مجلسِ علماء کا کہنا ہے کہ اب درگاہ حضرت بل، خانقاہِ معلیٰ اور وادیٴ کشمیر کی تمام چھوٹی بڑی مساجد، خانقاہوں، درگاہوں اور امام باڑوں میں جمعے کے اجتماعات منعقد کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
سرینگر کی مرکزی مسجد میں اس طرح کی سرگرمی پر پابندی جاری رکھنا بلا جواز ہے۔
مجلس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر جامع مسجد کو فوری طور پر نمازِ جمعہ کے لیے کھولنے کی اجازت نہیں دی جاتی تو حکومتی اقدام کے خلاف عوامی مزاحمت کو منظم کیا جائے گا۔