امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ پیرس اور سان برنارڈینو حملوں کے بعد امریکی پوچھ رہے ہیں کہ 'مجھے کیا کرنا ہوگا'۔
اپنے ہفتہ وار خطاب میں، اوباما نے کہا کہ 'سب سے اہم بات جو ہم کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ امریکی اپنے اقدار کی سچائی سے پاسداری کریں'۔
اُنھوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی یہ کوشش ہے کہ وہ مذہب اور نسل کی بنیاد پر ہم میں دراڑ ڈالیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خوف پھیلاتے ہیں۔ اِسی طرح ہی وہ (دہشت گردوں کی) بھرتی کرتے ہیں'۔
صدر اوباما نے امریکیوں پر زور دیا کہ 'ہر طرح کی ہٹ دھرمی کو مسترد کیا جائے'۔
اُنھوں نے کہا کہ 'تعصب اور امتیاز' کا رویہ داعش کے شدت پسند گروہ کا پسندیدہ ہتھیار ہے، جس سے 'ہماری قومی سلامتی کو دھچکا لگ سکتا ہے'۔
اوباما نے بتایا کہ وہ پیر کو پینٹاگان جائیں گے اور بعدازاں اُسی ہفتے انسدادِ دہشت گردی کے قومی مرکز جائیں گے، جہاں اِس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ داعش کے شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں کیا کچھ کیا جا رہا ہے اور مزید کیا کچھ ہو سکتا ہے۔
امریکی سربراہ نے یہ بھی کہا کہ محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی انتباہ کے اپنے نظام میں بہتری لائے گا، تاکہ امریکیوں کو بروقت اطلاعات میسر آسکیں، جس میں وہ اقدام بھی شامل ہوں گے، جنہیں اختیار کرکے بہتر طور پر چوکنہ اور محفوظ رہا جا سکتا ہے۔