بھارت کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں سے تین میں حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کی غیر متوقع کامیابی اور کانگریس کی شکست کو سیاسی و صحافتی حلقوں میں حیرانی سے دیکھا جا رہا ہے۔
ان نتائج کے اسباب کا تجزیہ کیا جا رہا ہے اور اس کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے کہ کیا اب بی جے پی کے لیے 2024 کا پارلیمانی انتخاب جیتنا آسان ہو گیا ہے۔
بی جے پی نے مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کامیابی حاصل کی جب کہ کانگریس نے تیلنگانہ میں جیت سمیٹی۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس اور تیلنگانہ میں ’بھارتیہ راشٹریہ سمیتی‘ (بی آر ایس) کی حکومت تھی۔
پانچویں ریاست میزورم میں پیر کو ووٹوں کی گنتی کے بعد اپوزیشن ’زورم پیپلز موومنٹ‘ (زیڈ پی ایم) نے حکمراں ’نیشنل میزو فرنٹ‘ (ایم این ایف) کو شکست دی ہے۔
بی جے پی نے رواں سال مئی میں جنوبی ریاست کرناٹک کو کانگریس کے ہاتھوں گنوا دینے کے بعد اس سے دو ریاستیں راجستھان اور چھتیس گڑھ چھین لیں اور مدھیہ پردیش کی اپنی حکومت بھی بچا لی۔
مبصرین کے خیال میں بی جے پی کی کامیابی میں متعدد عوامل کارفرما رہے ہیں جن میں وزیرِ اعظم مودی کی مقبولیت کے علاوہ تنظیمی سطح پر مربوط حکمتِ عملی اور معاشرے کے مختلف طبقات کے لیے فلاحی اسکیموں کے اعلانات شامل ہیں۔
'بی جے پی کے پاس الیکشن لڑنے کا سائنٹیفک طریقہ ہے'
سینئر تجزیہ کار اور نیوز ویب سائٹ ’ستیہ ہندی ڈاٹ کام‘ کے ایڈیٹر آشوتوش کا کہنا ہے کہ کانگریس پرانے طریقے سے انتخابات لڑتی ہے جب کہ بی جے پی جدید طریقوں سے لڑتی ہے۔ اس نے الیکشن لڑنے کا ایک سائنٹیفک طریقہ ایجاد کیا ہے۔ لہٰذا کانگریس بی جے پی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی فلاحی اسکیموں کا صرف اعلان نہیں کرتی بلکہ وہ ان پر عمل بھی کرتی ہے اور اس کے کارکن گھر گھر جا کر لوگوں سے معلوم کرتے ہیں کہ ان تک حکومت کی اسکیموں کا فائدہ پہنچا یا نہیں۔
یاد رہے کہ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بی جے پی میں گروپ بازی تھی۔ لیکن مبصرین کہتے ہیں کہ پارٹی ناراض لوگوں کو منانے میں کامیاب رہی۔ اگر چہ اس نے وزیرِ اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان کو وزیرِ اعلیٰ کے طور پر نامزد نہیں کیا تاہم ان کے وفاداروں کو ٹکٹ سے محروم بھی نہیں کیا۔
شیو راج سنگھ چوہان 20 برس سے ریاست کے مستقل وزیر اعلیٰ ہیں۔ اب بی جے پی نے وہاں پانچویں بار مسلسل کامیابی حاصل کی ہے۔
آشوتوش کے بقول بی جے پی کی تنظیم بہت مضبوط اور کانگریس کی کمزور ہے۔ ادھر آر ایس ایس بھی اس کی مدد کرتا ہے اور وہ میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کا بھی سہارا لیتی ہے۔
'کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ اب بھی کمزور ہے'
سینئر تجزیہ کار نیرجا چودھری کے مطابق کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہے۔ ریاستوں میں گروپ بازی ہے جس کی وجہ سے اس کے اعلانات پر عوام نے اعتماد نہیں کیا۔
اُن کے بقول چھتیس گڑھ میں پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کی کمزوری کے باوجود بی جے پی رہنماؤں نے یوتھ کی سطح پر کارکنوں سے رابطہ قائم کیا اور ان کو منظم کر کے زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈلوائے۔
مبصرین کے مطابق بی جے پی کی کامیابی میں خواتین کا بہت بڑا رول ہے۔ نیرجا چودھری اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ میں اپنے تجزیاتی مضمون میں کہتی ہیں کہ بی جے پی نے خواتین کے لیے جو اعلانات کیے ان پر خواتین نے اعتماد کیا۔ کانگریس نے بھی خواتین کے لیے فلاحی اسکیموں کا اعلان کیا لیکن اس پر اتنا بھروسہ نہیں کیا گیا۔
مدھیہ پردیش کے وزیرِ اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے خواتین کے لیے ’لاڈلی بہنا اسکیم‘ کا اعلان کیا تھا۔ بی جے پی نے چھتیس گڑھ میں غیر شادی شدہ خواتین کو 12 ہزار روپے سالانہ دینے کا اعلان کیا۔
چھتیس گڑھ کے کانگریسی وزیرِ اعلیٰ بھوپیش بگھیل نے بی جے پی کے جواب میں تمام خواتین کو 15 ہزار روپے سالانہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ راجستھان میں کانگریس کے وزیرِ اعلیٰ اشوک گہلوت نے 500 روپے میں گیس کا سیلنڈر دینے کا اعلان کیا۔ یاد رہے کہ گیس سیلنڈر کی قیمت تقریباً 12 سو روپے ہے۔
ان اعلانات کے جواب میں وزیرِ اعظم مودی نے کہا ان کے نزدیک ملک میں صرف چار برادریاں ہیں جن میں عورتیں بھی ایک برادری ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بی جے پی کی جیت میں ان سب کے علاوہ ہندوتوا کی سیاست کا بھی اثر ہے۔ پارٹی نے ہندوتوا، قومیت، ترقی، فلاحی پروگراموں اور مودی کی گارنٹی کو ایک ساتھ مربوط کر کے انتخابی مہم چلائی۔
وزیرِ اعظم نے ادے پور میں ایک ہندو ٹیلر کے قتل کا معاملہ اور دیگر فرقہ وارانہ ایشوز بھی اٹھائے۔ انھوں نے کانگریس پر مسلمانوں کو خوش کرنے کا الزام بھی لگایا۔
ماہرین کے مطابق اس انتخابی نتیجے میں بظاہر مسلم رائے دہندگان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ تاہم حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی کی جماعت ’آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین‘ (اے آئی ایم آئی ایم) نے حیدر آباد میں اپنا سابقہ ریکارڈ برقرار رکھا۔
اس نے نو حلقوں میں اپنے امیدوار اتارے تھے جن میں سے سات نے کامیابی حاصل کی۔ اس سے قبل بھی اس کے اتنے ہی ارکانِ اسمبلی تھے۔
کامیاب امیدواروں میں سب سے بڑی جیت اسد الدین اویسی کے بھائی اکبر الدین اویسی کو حاصل ہوئی۔ وہ چندریان گٹا سے 81 ہزار سے زائد ووٹوں سے کامیاب ہوئے۔ اے آئی ایم آئی ایم کا ریاست میں حکمراں پارٹی بی آر ایس کے ساتھ انتخابی اتحاد ہے۔
سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چار ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ اور تیلنگانہ میں مجموعی طور پر 639 ارکان اسمبلی کامیاب ہوئے ہیں جن میں مسلم امیدواروں کی تعداد صرف 13 ہے۔ اسد الدین اویسی کے کامیاب امیدوار بھی اس میں شامل ہیں۔
ان کے مطابق ان چار ریاستوں میں کانگریس کے 233 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جن میں مسلم امیدوار صرف پانچ ہیں۔ تین راجستھان میں اور دو مدھیہ پردیش میں۔ راجستھان کے ڈڈوانہ حلقے سے بی جے پی کے ایک باغی امیدوار یونس خان نے آزاد الیکشن لڑا اور وہ کامیاب رہے۔
وہ پہلے بی جے پی کے رکن اسمبلی تھے۔ لیکن اس بار انھیں ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ خیال رہے کہ بی جے پی نے ان میں سے کسی بھی ریاست میں کسی مسلمان کو اپنا امیدوار نہیں بنایا تھا۔
آئندہ برس کے انتخابات پر کتنا اثر پڑے گا؟
تسلیم رحمانی کہتے ہیں کہ حیدرآباد کے نتیجے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کسی مسلم حلقے میں کسی مسلم پارٹی کا واحد امیدوار کھڑا ہوتا ہے تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ بشرطیکہ دوسری پارٹیاں مسلم امیدوار نہ اتاریں۔ ان کے مطابق کانگریس کی شکست کی ایک وجہ اس کا سیکولرازم کو چھوڑ کر نرم ہندوتوا کی پالیسی اختیار کرنا بھی رہی۔
سیاسی و صحافتی حلقوں میں اس کا بھی تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ کیا ان انتخابی نتائج کا اثر 2024 کے پارلیمانی انتخابات پر پڑے گا۔
آشوتوش کے مطابق دعوے کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بی جے پی 2024 میں بھی کامیاب ہو جائے گی۔ البتہ کانگریس کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
بعض سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ 2024 میں علاقائی پارٹیوں کی کارکردگی اچھی رہے گی۔ تمل ناڈو میں ڈی ایم کے، مغربی بنگال میں ٹی ایم سی اور پنجاب میں عام آدمی پارٹی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گی۔
آشوتوش کے مطابق اس الیکشن کا اثر اپوزیشن کے اتحاد ’انڈیا‘ پر پڑے گا۔ اسے ازسرنو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن کے پاس چھ ماہ کا وقت ہے۔ اگر اس نے غیر معمولی محنت کی تو 2024 میں بی جے پی کے لیے مشکل ہو سکتی ہے۔