امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز اپنے سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں کہا کہ ان کی انتظامیہ نے افغانستان میں تصفیئے کے لیے بات چیت کو تیز کر دیا ہے اور جیسے ہی امریکہ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کے مذاكرات آگے بڑھیں گے تو وہ اس ملک میں امریکی فوجی دستوں کی تعداد گھٹانے کے قابل ہو جائیں گے۔
انہوں نے اپنے سالانہ خطاب میں کہا کہ عظیم قومیں لامتناہی جنگیں نہیں لڑتیں۔
کانگریس سے اپنے خطاب میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکی فوجیوں نے شام میں داعش کے عسکریت پسندوں کو تقریباً شکست دے دی ہے اور اب فوجیوں کو اپنے گھروں میں واپس لانے کا وقت آ گیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے 17 سالہ افغان جنگ میں امریکی فوجیوں کی شجاعت کو سراہتے ہوئے کہا کہ اب ہم اس خونی اور طویل جنگ کے خاتمے کے لیے ممکنہ سیاسی حل کی جانب بڑھنے کے قابل ہو گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ہم ان مذاکرات میں پیش قدمی کریں گے تو ہم اس ملک میں اپنی فوجی موجودگی گھٹانے کے قابل ہو جائیں گے۔ اور پھر ہم یقینی طور پر انسداد دہشت گردی پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔
تاہم, ٹرمپ نے اس بارے میں کوئی واضح بات نہیں کی کہ وہ افغانستان میں تعینات 14 ہزار امریکی فوجیوں کو کب وطن واپس لائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ ہم کوئی معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوں گے بھی یا نہیں. لیکن, دو عشروں کی جنگ کے بعد اب ہم یہ جانتے ہیں کہ کم از کم امن کے لیے کوشش کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
صدر ٹرمپ کے سٹیٹ آف دی یونین خطاب کے دوران افغانستان سے فوجوں کی واپسی کے بعد انسداد دہشت گردی پر توجہ مرکوز رکھنے کے بیان کو طالبان نے مسترد کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئیٹرز نے بتایا کہ قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ٹیلی فون پر اپنی گفتگو میں کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ پہلے مرحلے میں تمام غیر ملکی فورسز ہمارے ملک سے چلی جائیں۔ ہم اپنے ملک میں غیر ملکی فورسز کا اختتام دیکھنا چاہتے ہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کے خاتمے کے بعد ان کی غیر فوجی ٹیمیں آ سکتی ہیں اور تعمیر نو اور ترقیاتی عمل میں حصہ لے سکتی ہیں۔