کینیا کی گارسیا یونیورسٹی میں طلبا نے ہفتے کو گزشتہ سال مشرقی کینیا میں ایک درسگاہ پر ہوئے دہشت گرد حملے کی پہلی برسی منائی جس میں 148 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس موقع پر جمع ہونے والے طلبا نے دعائیہ گیت گائے، شمعیں روشن کیں اور اپنے ان ساتھی طلبا سے وبستہ یادوں کا ایک دوسرے کے ساتھ تذکرہ کیا جنہیں الشباب کے عسکریت پسندوں نے ان کے ہاسٹل میں داخل ہو کر ہلاک کر دیا تھا اور یہ کارروائی کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔
الشباب کے عسکریت پسندوں نے کہا تھا کہ انہوں نے یونیورسٹی کیمپس پر حملہ کینیا کی فوج کی طرف سے صومالیہ میں کی جانے والی کارروائیوں کے ردعمل میں کیا ہے۔
اس حملے کے ردعمل میں کینیا کی سکیورٹی فورسز کی طرف سے سست روی کے مظاہرے کو وسیع پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ مقامی میڈیا کے مطابق انہیں یونیورسٹی پہنچنے میں سات گھنٹے لگے۔
اس حملے کا نشانے بننے والوں کی یاد میں چند ایک والدین وسطی نیروبی میں واقع ایک پارک میں جمع ہوئے۔ انہوں نے اس موقع پر شمیعیں روشن کیں اور اپنے دکھ کو بیان کرتے ہوئے حوصلہ افزائی کی ایسی باتیں کیں جس سے دوسروں کو اپنے نقصانات برداشت کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
اس میموریل سروس کے ایک منتظم سیموئیل اجورو نے کہا "ہم یہاں بچوں کے سفاکانہ قتل کی پہلی برسی منانے کے لیے آج اکٹھے ہوئے ہیں۔ متعلقہ حکام سے بات کرنے کے لیے کل کا پورا دن ہم نے صدر کے دفتر میں گزارا"۔
انہوں نے کہا کہ منتظمین نے صدر کے دفتر کے اعلیٰ انتظامی سیکرٹری کینیڈی کیہارا سے بات کی اور وہ ان کا پیغام ایوان صدر تک پہنچائیں گے۔
گارسیا کی یونیورسٹی میں مہلک حملے کا نشانہ بننے والوں کے خاندان اب بھی اپنے غم کو بھولنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں ریاست اور معاشرے نے (بے یارومددگار) چھوڑ دیا ہے۔ تاہم ان میں سے کئی ایک اب بھی یونیورسٹی میں حملے والے دن ہونے والے واقعات کی وجوہات جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کینیا کو صومالیہ میں عسکریت پسند گروپ کے خلاف اپنے فوجی دستے بھیجے جانے کے بعد 2011 سے الشباب کے حملوں کو سامنا ہے۔
کینیا کے معروف تجارتی مرکز ویسٹ گیٹ میں 2013 میں ہوئے حملے کی ذمہ داری بھی الشباب نے قبول کی تھی جس میں 67 افراد ہلاک ہوئے۔