فیض آباد میں طلبہ کا احتجاج: رکشہ ڈرائیورز، کاغذ چننے والوں سمیت دیگر افراد کے ملوث ہونے کا انکشاف

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ فیض آباد کے قریب روڈ بلاک ہے۔ جب کہ ایک گاڑی کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔

اسلام آباد میں فیض آباد کے قریب امتحانات کے خلاف احتجاج میں طلبہ کے علاوہ ارد گرد کے رکشہ ڈرائیورز اور کاغذ چننے والوں کے شامل ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

امتحانات ملتوی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑک پر گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کرنے والے افراد کے بارے میں اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ ان میں صرف طلبہ ہی نہیں، بلکہ ارد گرد کے رکشہ ڈرائیورز اور کاغذ چننے والے بھی شامل تھے۔

پولیس کے مطابق رکشہ ڈرائیورز اور کاغذ چننے والوں نے ہنگامہ آرائی ہوتے ہوئے دیکھی تو اس میں شامل ہو گئے اور شہریوں کی املاک کو نقصان پہنچایا۔

اس ضمن میں طلبہ کے ایک گروہ نے فیض آباد میں ہنگامہ آرائی کرنے والوں سے مکمل لاتعلقی کا اظہار بھی کیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ذمہ داران کو ان کے انجام تک پہنچائیں گے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فیض آباد کے قریب سیکڑوں افراد نے روڈ بلاک کیا ہوا ہے اور ایک گاڑی پر پتھر برسائے جا رہے ہیں۔ اور پھر اس گاڑی کے دروازوں کو توڑا جا رہا ہے۔

فیض آباد پر احتجاج راولپنڈی اور اسلام آباد کے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کر رہے تھے جن کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک سال سے تعلیمی ادارے مکمل بند رہنے کی وجہ سے آن لائن تعلیم دی گئی۔ البتہ اب امتحانات کے لیے تعلیمی اداروں میں جانے کا کہا جا رہا ہے۔

طلبہ کا مزید کہنا تھا کہ یا تو ان کے آن لائن امتحانات لیے جائیں یا پھر انہیں مزید وقت دیا جائے۔

یاد رہے کہ حکومت نے رواں ماہ امتحانات کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔

اسلام آباد کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ڈاکٹر مصطفیٰ تنویر نے کہا ہے کہ اسپیشل برانچ سے احتجاج کے بارے میں معلومات ملی تھیں۔ یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ طلبہ اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے تمام تر انتظامات کر لیے گئے تھے۔ البتہ جب احتجاج کرنے والے طلبہ راولپنڈی کی طرف آئے اور فیض آباد کے قریب ان کی تعداد میں اضافہ ہوا تو ان میں سے بعض نے وہیں احتجاج کا فیصلہ کیا اور راولپنڈی اسلام آباد کی آنے اور جانے والی ٹریفک معطل کر دی۔

مصطفیٰ تنویر کا کہنا تھا کہ اس جلوس کی کوئی لیڈر شپ نہیں تھی جس کا جو دل چاہ رہا تھا وہ کر رہا تھا۔ اس دوران وہاں سے گزرنے والے ایک شخص کی گاڑی کو زبردستی روکا گیا تو اس نے اپنی حفاظت کے پیشِ نظر پستول نکال لیا تھا۔

ان کے بقول پستول دیکھ کر وہاں موجود افراد مشتعل ہو گئے اور انہوں نے اس شخص پر تشدد کے ساتھ ساتھ اس کی گاڑی کو بھی نقصان پہنچایا۔

مصطفیٰ تنویر نے بتایا کہ اس واقعے میں ملوث 24 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ جب کہ مظاہرے میں شریک افراد کی 41 موٹر سائیکل بھی ضبط کی گئی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ تھانے میں موجود موٹر سائیکلوں کے مالکان آ رہے ہیں تو ان سے بھی تفتیش کی جا رہی ہے کہ اس پر کون سوار ہو کر احتجاج کے لیے آیا تھا۔

ایس ایس پی آپریشن مصطفیٰ تنویر نے کہا کہ توڑ پھوڑ کرنے والے افراد میں اگرچہ طلبہ بھی شریک تھے۔ البتہ ان میں زیادہ وہ لوگ تھے جن کا اس احتجاج سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ صرف ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے لیے اس احتجاج کا حصہ بنے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی یہاں ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں جن میں مقامی کاغذ چننے والے، رکشہ ڈرائیور اور ریڑھی بان کسی احتجاج میں شریک ہوتے رہے اور توڑ پھوڑ کرتے رہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ ان ہی افراد نے پولیس کی کروڑوں روپے مالیت کی دو اے پی سی گاڑیوں کو آگ لگا دی تھی جب کہ شہریوں کی درجنوں گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسے ہنگامہ کرنے والے افراد معاشرے کا محروم طبقہ ہیں اور وہ ایسے موقع پر غصہ دوسروں کو نقصان پہنچا کر نکالتے ہیں۔

طلبہ کا ہنگامہ آرائی سے مکمل لاتعلقی کا اظہار

اس بارے میں اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں طلبہ کے ایک گروہ نے پریس کانفرنس میں کسی ہنگامہ آرائی سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جن افراد نے توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کی انہیں سخت سزا دی جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ طلبہ کسی صورت ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ میں شریک نہیں تھے۔

طالب علم حسیب احمد نے کہا کہ وہ کرونا وائرس کی صورتِ حال کی وجہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔ اب تک کسی طالب علم کی ویکسی نیشن نہیں ہوئی اور کرونا کا خطرہ بدستور موجود ہے۔

ان کے بقول گزشتہ سال محض چند دن اسکول یا کالج جانا ہوا ہے اور تمام طلبہ کی تیاری نہ ہونے کے برابر ہے ایسے میں حکومت کی طرف سے فوری امتحانات کا اعلان مستقبل تاریک کرنے کے برابر ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ امتحانات کو مؤخر کیا جائے تاکہ طلبہ مکمل تیاری کے ساتھ امتحان دے سکیں۔

'طلبہ کے احتجاج کا یہ طریقہ کسی صورت قابلِ قبول نہیں'

ماہرِ تعلیم ڈاکٹر شاہد اقبال کامران کہتے ہیں کہ امتحانات کے التوا کے لیے طلبہ کے احتجاج کا یہ طریقہ کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے۔ عام شہری کی گاڑی راستے سے گزرنا چاہتی تھی لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہاں ایسا احتجاج کیا جا رہا ہے کہ جہاں گزرنے کی کوشش کرنے والے کو یہ سب برداشت کرنا پڑے گا۔

شاہد اقبال کامران نے پولیس اور ضلعی انتظامیہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتظامیہ کو اپنی نا اہلی کو تسلیم کرتے ہوئے مستعفی ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان میں صرف طالب علم ہی نہیں تھے بلکہ شر پسند عناصر بھی شامل تھے۔

ماہرِ تعلیم ڈاکٹر شاہد اقبال کامران کے بقول موجودہ دور میں طلبہ کو تعلیم تو شاید دی جا رہی ہو لیکن ان کی تربیت کا شدید فقدان ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر طالب علموں کو احتجاج کرنا ہی تھا تو وہ وزارتِ تعلیم کے باہر جمع ہو سکتے تھے۔ البتہ انہوں نے بھی ماضی کے سیاسی دھرنوں کی طرح فیض آباد کا انتخاب کیا جس سے عام شہری شدید متاثر ہوئے اور انہیں لاکھوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔

'بچوں کی اس ہنگامہ آرائی میں والدین بھی برابر کے ذمہ دار ہیں'

دوسری جانب ایس ایس پی مصطفیٰ تنویر کا کہنا ہے کہ گرفتار افراد کے خلاف ایک مقدمہ ریاست کی طرف سے جب کہ ایک متاثرہ شخص کی جانب سے درج کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے موقع پر ہی آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کے ذریعے مظاہرین پر قابو پایا تھا اور ٹریفک کی روانی بحال کر دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ان افراد کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہیں اور کوشش ہے کہ ذمہ داران کے خلاف ایسی کارروائی کی جائے جو مستقبل میں ان کو ایسے اقدام کرنے سے ہمیشہ کے لیے روکے۔

مصطفیٰ تنویر کا مزید کہنا ہے کہ بچوں کی اس ہنگامہ آرائی میں والدین بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔