پاکستان کے صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں جامعہ بلوچستان کے دو طالب علموں کے مبینہ طور پر لاپتہ ہونے اور ان کی عدم بازیابی کے خلاف شہر بھر کے تمام تعلیمی ادارے احتجاجاً بند ہیں۔
طلبہ تنظیموں کی کال پر پیر کو کوئٹہ کے اکثر تعلیمی اداروں کو بند کیا گیا جو بدستور منگل کو بھی بند رہے۔ جامعہ بلوچستان، بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز (بیوٹمز) سمیت اداروں کے کیمپس میں بھی تعلیمی سرگرمیاں معطل رہیں۔
بولان میڈیکل کالج کی بندش کے باعث ایم بی بی ایس کے امتحانات ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ سردار بہادر خان ویمنز یونیورسٹی کی بسوں کو بھی طالبات کے لیے نہیں چلایا گیا۔
بلوچستان یونیورسٹی کی طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات بالاچ قادر نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی حکومتی کمیٹی کو 19 نومبر تک کی ڈیڈلائن دی تھی۔
ان کے بقول حکومتی مذاکراتی کمیٹی بات چیت کے لیے نہیں آئی جس کے بعد طلبہ تنظیموں نے پیر اور منگل کو کوئٹہ کے تمام تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پیر کو صوبے کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے جامعہ بلوچستان سمیت سائنس کالج، ڈگری کالج، پولی ٹیکنیکل کالج اور دیگر اداروں کو بھی طلبہ نے احتجاجاً تالے لگا دیے۔
طلبہ کی مبینہ گمشدگی کا واقعہ کب پیش آیا؟
جامعہ بلوچستان کے ہاسٹل سے دو طلبہ کی مبینہ جبری گمشدگی کے واقعے کے خلاف طلبہ تنظیمیں گزشتہ 22 روز سے احتجاج کر رہی ہیں۔
فصیح اللہ اور سہیل احمد نامی دونوں طلبہ کی گمشدگی کا مبینہ واقعہ یکم نومبر کو پیش آیا تھا۔ دونوں طالب علم پوزیشن ہولڈر ہیں جب کہ آپس میں چچا زاد بھائی بھی ہیں۔ ان کا تعلق بلوچستان کے ضلع نوشکی سے ہے۔
SEE ALSO: بلوچستان یونیورسٹی کے دو طالب علم مبینہ طور پر لاپتا، طلبہ تنظیموں کا احتجاجوائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بالاچ قادر نے کہا کہ یکم نومبر کو فصیح اللہ اور سہیل بلوچ صبح سے شام تک اپنے دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ بلوچستان یونیورسٹی میں موجود تھے۔ شام پانچ بجے یونیورسٹی کے قریب سے وہ دوستوں سے الگ ہوئے اور اس کے بعد سے وہ لاپتا ہیں۔
بالاچ کے مطابق ان کے اہل خانہ نے بتایا تھا کہ دونوں طالب علموں کے رابطہ نمبر بند ہیں جس کے بعد ان کی ہاسٹل میں تلاش شروع کی گئی البتہ ان کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا۔
انہوں نے کہا کہ دونوں طلبہ کی گمشدگی کی اطلاع یونیورسٹی انتظامیہ کو دی گئی اور سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ البتہ انتظامیہ ہاسٹل کے پاس نصب سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج دکھانے سے گریزاں رہی ہے جس پر وہ احتجاج کر رہے ہیں۔
طلبہ کی گمشدگی پر اب تک کیا کارروائی ہوئی؟
دونوں طلبہ کی مبینہ گمشدگی کے خلاف تھانہ سریاب میں ان کے بھائی شہنشاہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق مدعی شہنشاہ نے بیان دیا کہ ان کے بھائی اور ہم جماعت بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ پاکستان اسٹڈیز کے طالب علم ہیں اور ہاسٹل کے کمرہ نمبر 22 میں ایک ساتھ رہائش پذیر ہیں، دونوں کے موبائل نمبر بند ہیں۔
سریاب پولیس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالب علموں کی گمشدگی کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج کی گئی ہے اور اس سلسلے میں تحقیقات کا عمل جاری ہے۔
پولیس کے مطابق بلوچستان یونیورسٹی میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج سے بھی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
علاوہ ازیں منگل کو ایس ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ کی جانب سے مقامی اخبارات میں لاپتا ہونے والے طالب علموں کی تلاش سے متعلق اشتہار دیے گئے ہیں۔
ان اشتہارات میں عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ دونوں طالب علموں کی تلاش میں پولیس کی معاونت کی جائے۔ البتہ طلبہ کے اہل خانہ اور گمشدہ طلبہ کے ساتھی پولیس کی جانب سے اب تک اٹھائے گئے اقدامات سے مطمئن نہیں۔
بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسننگ پرسنز نے بھی جامعہ بلوچستان کے طالب علموں کی مبینہ طور پر جبری گمشدگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
SEE ALSO: جبری گمشدگی کو جرم بنانے کا بل منظور: ’پولیس طاقتور اداروں سے کیسے تفتیش کرے گی؟‘تنظیم کے چیئرمین نصر اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے رواں ماہ کے دوران 16 طالب علموں کو جبری طور پر لاپتا کیا گیا ہے۔
ان کے بقول حکومت گمشدگیوں کے مسئلے کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دیکھے۔ جن لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کیا جاتا ہے ان کے اہلِ خانہ اذیت سے دو چار ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی فرد غیرآئینی یا غیرقانونی کام کرتا ہے تو اس کے خلاف مقدمہ درج کرکے عدالتوں میں کارروائی کی جائے۔
حکومت کیا کہتی ہے؟
طالب علموں کی مبینہ گمشدگی کے بعد وزیرِاعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے سرکاری سطح پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے طلبہ تنظیموں کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔
وزیر اعلیٰ نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے تنظیموں سے مذاکرات کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔
ادھر بلوچستان کے مشیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ ''حکومت جامعہ بلوچستان کے لاپتا طلبہ کی بازیابی کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھا رہی ہے۔''
ان کا کہنا تھا کہ "ہم تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ حکومت کے پاس ان دنوں طالب علموں کی کسی سرکاری ایجنسی کی تحویل کے حوالے سے کوئی مستند اطلاعات نہیں ہیں۔ تاہم ہم ان کی محفوظ واپسی کو یقینی بنانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔''