سوڈان میں موجود اہراموں کی تعداد مصر سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔
ان اہراموں میں سے کئی ہزاروں سال پرانے ہیں۔ سوڈان کے پڑوسی ملک مصر میں بھی ایسے ہی کئی اہرام موجود ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اہراموں کی تعمیر کے لیے لاکھوں مزدوروں سے کام لیا گیا تھا۔ تاہم ایسے ٹھوس شواہد موجود نہیں جن کے نتیجے میں یقین سے کہا جا سکے کہ مزدوروں کی بہت بڑی تعداد کو اس کام پر مامور کیا گیا تھا۔
سیکڑوں سال پرانے اہرام اب بھی کسی حد تک اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔
صدیوں سے ماہرین اس سوال کے جواب کی تلاش میں مصروف ہیں کہ ہنرمندوں نے دو ٹن سے بھی وزنی پتھروں کو اہراموں کے تعمیراتی حصے تک پہنچانے کے لیے آخر کون سا طریقہ استعمال کیا ہو گا۔
کچھ عرصہ قبل 'ایمسٹرڈم یونیورسٹی' سے وابستہ سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے مصر کے اہراموں کی تعمیر کے لیے استعمال کیے جانے والے ایک ممکنہ طریقے کا سراغ لگا لیا ہے۔ جس کا جواب بہت آسان ہے یعنی' گیلی ریت'۔
اہراموں کی تعمیر میں استعمال ہونے والے پتھروں کی اینٹیں ناقابل یقین حد تک وزنی اور بڑی ہیں۔
یہاں سے نوادرات ملنے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ اکثر مقامی افراد بھی نوادرات سے مشابہہ اشیا سیاحوں کو فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ اہرام مصریوں کے اس عقیدے کے نتیجے میں وجود میں آئے کہ اگر موت کے بعد مرنے والے کا جسم محفوظ رہے تو اسے دوسری زندگی ملتی ہے۔
صحرائی اور ریتلے علاقے میں ہونے کے باوجود یہ اہرام صدیوں سے اپنی جگہ قائم ہیں۔