'میری بیوی نے تین دن پہلے بیٹی کو جنم دیا ہے سیلاب کی وجہ سے سرکاری اسپتال بھی بند پڑا تھا تو میں ڈلیوری کے لیے اسے کسی اور جگہ لے کر گیا جہاں چھ ہزار روپے دے کر ڈلیوری کروائی۔ دس روز قبل ہم آدھی رات کو سیلاب آ جانے کی وجہ سے گھر چھوڑ کر سڑک کنارے آ بیٹھے۔ میری بیوی کی حالت ٹھیک نہیں تھی لیکن کیا کرتے مجبوری تھی۔"
یہ کہنا ہے میرپورخاص کے ایک گوٹھ کے رہائشی اشوک کمار کا جو پہلی بار باپ بننے پر خوش تو ہیں لیکن گھر اور دکان کے ڈوب جانے کے غم نے بھی انھیں گھیرے ہوا ہے۔ اشوک میر پور خاص شہر میں دھوبی کی دکان چلاتے ہیں جو اب بند پڑی ہے۔
اشوک کا خاندان اب جھڈو بائی پاس پر 10 روز گزارنے کے بعد نقل مکانی کر کے مرکزی شاہراہ کی جانب جا رہا ہے۔ جہاں انہیں امداد ملنے کی امید ہے۔ گھر کا بچا کھچا سامان ٹریکٹر ٹرالی پر چڑھا دیا گیا ہے۔ ان کی تین روز کی نوزائیدہ بچی دادی کی گود میں بیٹھی ٹریکٹر سے مطلوبہ جگہ پہنچے گی جس کی آنکھ ان سیلابوں میں کھلی جو اس وقت اس کی ماں مینا اور باپ اشوک کے تمام خوابوں کو بھی بہا کے لے جا چکا ہے۔
پاکستان کے صوبہ سندھ میں اس وقت 23 اضلاع آفت زدہ قرار دیے جاچکے ہیں۔ اس برس مون سون کی تباہ کن بارشوں نے ملک بھر کو سیلابی صورتِ حال سے دوچار کر رکھا ہے۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ صوبہ سندھ میں اب تک 450 ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے جس میں املاک، سڑکیں، مکانات، کاروبار، فصلیں شامل ہیں۔
نقصانا ت کا یہ تخمینہ صوبائی حکومت کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں جاری کیا گیا ہے لیکن مالی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہوسکتا ہے۔ اب تک کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق 5ہزار 715 سے زائد دیہات ڈوبے ہوئے ہیں۔ تقریباً 15 لاکھ سے زائد کچے مکانات متاثر ہوئے ہیں جس کے سبب لوگ بے یارو مددگار اب سڑکوں کے کناروں پر مدد کے لیے بیٹھے ہیں۔
وائس آف امریکہ نے سندھ میں سیلاب سے متاثرہ اضلاع اور اس سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے کراچی سے صبح پانچ بجے سفر شروع کیا۔
حیدر آباد سے گزرتے ہوئے جو مناظر دکھائی دیے وہ بتارہے تھے کہ حالیہ بارشوں کے بعد سے اگر سندھ کا دوسرا بڑا شہر ایسے متاثر ہے تو آگے کے علاقے کتنے مسائل میں گھرے ہوں گے۔
دریائے سندھ اس وقت بارشوں اور سیلاب کے سبب بپھرا ہوا ہے۔ ہماری منزل میر پورخاص تھی جہاں کے دیہات اس وقت سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔ شہر سے اندر سفر کے دوران جاتے ہوئے سڑک کنارے اپنی مدد آپ کے تحت عارضی خیمے لگائے بیٹھے خاندانوں کی گنتی کرنا بھی مشکل ہے۔ ٹنڈو الہ یار سے تیز بارش کا آغاز ہو چکا تھا جو میر پورخاص میں بھی جاری رہی۔
میر واہ گوٹ کے رہائشی بے بسی سے فصلوں سے گزرتے سیلابی ریلوں کو دیکھ رہے تھے۔ کئی خواتین سروں پر ضرورت کی اشیا اٹھائے اس سیلابی ریلے سے گزر کر سڑک تک پہنچ رہی تھیں۔ وجہ جانی تو معلوم ہوا کہ جن دیہات میں ان کے گھر تھے وہ وہاں چار سے پانچ فٹ پانی سے گزر کر جاتی ہیں اور گھر سے تھوڑا تھوڑا سامان اٹھا کر سڑک کنارے لارہی ہیں۔
نوراں صبح سے پانچ چکرلگا چکی ہیں اور ان کی بہو صبح سے اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح بارش تھمے تو وہ امداد میں ملنے والے کلو آٹے سے روٹی پکا سکیں۔ لیکن مسلسل بارش اور لکڑیوں کے گیلے ہونے سے انہیں بار بار ناکامی کا سامنا ہے۔
ہم یہاں ساٹھ برس سے بیٹھے ہیں میں نے کبھی ایسی برساتیں نہیں دیکھیں۔ پہلے روز جب بارش ہوئی تو گھروں میں پانی نہیں آیا تھا لیکن اس کے اگلے دو روز میں آدھی رات ہمارے گھر کے اندر پانی داخل ہو گیا۔ ہم نے رلیاں، کچھ برتن، اپنے کپڑوں کی گٹھڑیاں اٹھائیں اور نکل پڑے۔ مردوں نے پہلے ہم ساری عورتوں ں کو نکالا پھر مویشی لے کر وہ لوگ پیچھے آئے۔
گوٹ میگھوار کے سر پنچ نادو میگھوار اپنے 40 خاندانوں کے ہمراہ جھڈو میں سڑک کنارے بیٹھے ہیں۔ 40 خاندانوں میں سے صرف 10 کے پاس سبز رنگ کے خیمے ہیں جن پر حکومت سندھ لکھا ہوا ہے۔ دریافت کرنے پر پتا چلا کہ علاقے کے ممبر صوبائی اسمبلی نے یہاں صرف 10 خیمے دیے اور کہا کہ 40 خاندان اس میں گزارا کریں۔
کوئی کسی کے گھر میں زیادہ دن نہیں رک سکتا یہاں 40 خاندانوں کی عورتوں کو کیسے 10 خیموں میں غیروں کے ساتھ بٹھائیں؟ لیکن پھر ہم نے طے کیا کہ عورتوں اور بچوں کو ایک ساتھ کر دیا جائے۔ لیکن بات صرف خیموں کی نہیں خوراک کی بھی ہے۔ ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔ کچھ خدا ترس نوجوان رو ز آتے ہیں اور پکے ہوئے چاول کی تھیلیاں د ے جاتے ہیں وہی ہم دوپہر کو بھی کھاتے ہیں اور رات بھی۔ ایسا بھی ہوا کہ تیز بارش کے سبب یہ کھانا نہیں ملا تو دو روز بھوکے بھی رہے۔
پینتیس سالہ سویتا سڑک کنارے بیٹھی ہیں خیمے کے اندر تین بچے تو ایک بچہ خیمے سے باہر چارپائی پر لیٹا ہوا ہے جو بخار سے تپ رہا ہے۔ سویتا اسی چارپائی پر بیٹھ کر اپنا ڈوبا ہوا گھر دیکھتی ہیں اور آنسو صاف کر کے اپنے بچوں کی دیکھ بھال میں لگ جاتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ "مجھے اپنا ڈوبا ہوا گھر دیکھ کر بہت برا لگ رہا ہے بس اتنا ہی کہوں گی کہ خدارا ہماری مدد کریں چھوٹے چھوٹے بچوں کا ساتھ ہے نہ ہمارے سروں پر چھت ہے نہ ہی کھانا۔ ہم عورتوں کو ٹوائلٹ کی اشدضرورت ہے بہت مصیبت ہے جب کسی عورت کو کپڑے بدلنے ہوں یا ٹوائلٹ جانا ہو تو وہ کھلے آسمان تلے جہاں ہر جگہ پانی ہی پانی ہے وہ کہاں جائے؟ آپ خود خاتون ہیں اس مشکل کو سمجھ سکتی ہیں۔'
جھڈو سے نکلتے ہوئے ڈگری کے راستے ایک فائر بریگیڈ کی گاڑی نظر آئی جو سیلاب زدگان کو پانی فراہم کر رہی تھی۔ ہمارے رکنے پر چھوٹے بچے اور عورتیں دوڑتی ہوئی آئیں اور پوچھا کہ کیا آپ امداد دینے آئی ہیں؟ ہمیں کھانا یا آٹا دے دیں۔ بے بسی کی تصویر بنے بے سروسامانی کی حالت میں بیٹھے یہ سینکڑوں خاندان نہیں جانتے کہ سیلاب کا پانی کب اترے گا اور یہ کب گھروں کو جائیں گے۔
میرواہ سے ذرا آگے سیلابی ریلہ تیزی سے سڑک کی دوسری جانب جا رہا تھا جس سے نہ تو سڑک دکھائی دے رہی تھی نہ راستے کا تعین ممکن تھا۔ تیار فصلوں میں کھڑا پانی اور کئی فصلوں سے گزرتے ریلے ہاریوں کے دل پر آرے چلا رہے تھے ان کا سب کچھ داؤ پر لگ چکا تھا۔ برباد فصلیں، خالی نظروں اور جیبوں نے ان کی ہمت کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔
"میری سات بکریاں سیلاب میں بہہ گئیں یہ بھینس اب بیمار ہے نہ جانے کب ساتھ چھوڑ جائے بارش ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی سرکار کچھ نہ کرے بس ہمیں کسی اسکول یا سرکاری عمارت میں منتقل کر دے جہاں ہماری عورتیں، بچے اور جانور تو محفوظ ہوں ہمارا کیا ہے ہم تو کھلے آسمان تلے بھی دن رات گزار لیں گے۔"ـ یہ کہنا ہے 50 سالہ رام دین کا جو اپنے خاندان کے 11 افراد کے ساتھ ڈوبی فصلوں کے پاس بیٹھے ہیں۔
سیلاب متاثرین میں شامل جیوتی کے مطابق جن زمینوں پر وہ اور ان کے گاؤں کے دیگر افراد کام کرتے تھے اس زمیندار نے انہیں پانچ کلو آٹے کی بوری دی ہے لیکن اب لکڑی گیلی ہے کھانا کیسے بنے گا؟ کیا کبھی کسی نے اپنے گھر کو خود آگ لگائی ہے ہم تو اب یہ بھی کر رہے ہیں جن لکڑیوں سے ہم نے اپنے گھر بنائے تھے ان کی مٹی بہہ گئی ہے اب وہ لکڑیاں نکال نکال کر لارہے ہیں اور پھر چولہا جلاتے ہیں۔
مجیداں اپنے مزدور شوہر کے ہمراہ بیٹھی ہیں ان کا شکوہ ہے کہ جب سیاست دانوں کو ووٹ چاہئیں ہوں تو دوڑ کر آتے ہیں ہمیں ڈھونڈ کر بتاتے ہیں کہ ووٹ کیسے ڈالنا ہے ایسے نشان نہیں لگانا کہ غلط ہوجائے اور ووٹ ضائع ہوجائے۔ اب یہ سب غائب ہیں اب تو ہم اس کو ووٹ دیں گے جو ہمیں کھانا دے گا سر چھپانے کی جگہ دے گا۔ابھی ہمیں تسلیاں نہیں سر چھپانے کے لیے ترپال اور پیٹ بھرنے کے لیے کھانا چاہیے بس۔
مجھے کہانیاں سنانے کے لیے بے شمار خاندان بے چین تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جن کے آنسو خشک ہوچکے تھے لیکن ان کی آنکھیں سب چیخ چیخ کر بتارہی تھیں کہ اس سیلاب نے صرف ان کے گھروں، فصلوں، مویشیوں کو ہی نہیں انہیں بھی نگل لیا ہے۔