سپریم کورٹ آف پاکستان نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو خلافِ آئین قرار دینے کے لیے دائر درخواستیں مسترد کرتے ہوئے قانون کو آئین کے مطابق قرار دیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بدھ کی شام سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ سنایا جس کے مطابق دس پانچ کی اکثریت سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو آئین کے مطابق قرار دیا گیا ہے۔
فیصلے کے مطابق ایکٹ میں سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے خلاف نظرِ ثانی کے بجائے اپیل کا حق دیا گیا تھا جسے عدالت نے نو، چھ کی اکثریت سے برقرار رکھا ہے۔ جب کہ ماضی کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق آٹھ، سات کی اکثریت سے کالعدم قرار دے دیا ہے۔
چیف جسٹس نے دورانِ سماعت ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ ایک دوسرے کے دُشمن نہیں ہیں، بلکہ دونوں ایک ساتھ چل سکتے ہیں۔
فل کورٹ کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کر رہے تھے۔ فل کورٹ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے عہدہ سنبھالتے ہی سب سے پہلے اس کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا تھا۔
اس قانون کے تحت ازخود نوٹس لینے اور کسی بھی بینچ کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس سے لے کر سپریم کورٹ کے تین سینئر ججز پر مشتمل کمیٹی کو دیاگیا تھا۔
'سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے تحت ازخود نوٹس کے فیصلے سے متاثر ہونے والے فریق کو ایک ماہ میں اپیل کا حق دیا گیا ہے جب کہ متاثرہ فریق کو وکیل تبدیل کرنے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔
یہ بھی جانیے
فل کورٹ لائیو کوریج؛ ’یہ تو ایشیا کپ کے فائنل سے بھی زیادہ دل چسپ ہے‘ 'پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ' کیس کی سماعت تین اکتوبر تک ملتوی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ: چیف جسٹس فائز عیسی نے حلف اٹھاتے ہی فل کورٹ تشکیل دے دیاعدلیہ کے وقار کی بحالی اور زیرِ التوا مقدمات نئے چیف جسٹس کے لیے بڑے چیلنجسپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 ہے کیا؟
پاکستان کی پارلیمان نے اپریل 2023 میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی منظوری دی تھی۔بل کے مطابق سینئر ترین تین ججوں کی کمیٹی از خود نوٹس لینے کا فیصلہ کرے گی۔ یہ کمیٹی چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سپریم کورٹ کےتین سینئر ترین ججز پر مشتمل ہو گی۔
ترمیمی بل میں کہا گیا کہ کسی بھی آئینی تشریح کے لیے کمیٹی پانچ رُکنی بینچ تشکیل دے گی۔ آرٹیکل 184 کے تحت کوئی بھی معاملہ پہلے ججوں کی کمیٹی کے سامنے آئے گا۔
اس ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے خلاف اپیل کا حق بھی ہوگا۔ کسی بھی سوموٹو نوٹس پر 30 دن میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔
اس قانون کے بل میں کہا گیا کہ کسی بھی سوموٹو کے خلاف اپیل کو دوہفتوں میں سنا جائے گا۔ اس ایکٹ کا اطلاق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں پر ہوگا۔
عدالتی اصلاحات کے ترمیمی بل کے ذریعے چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار کو محدود کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے 'سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف درخواستوں کے بعد اس پر عمل درآمد روک دیا تھا۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں زیرِِ سماعت ہے جس پر منگل کو فل کورٹ نے دوسری سماعت کی۔