سوئٹزرلینڈ کاشمار دنیا کےخوبصورت ملکوں میں ہوتا ہے۔ اس کے حسن کا راز سرسبز پہاڑوں کی برف پوش چوٹیاں ہیں۔ یورپ کے زیادہ تر گلیشیئر سوئٹزر لینڈ میں ہی ہیں۔ لیکن اب اس کے حسن کو گہن لگ گیا ہے۔ ایک تازہ رپورٹ سے ظاہر ہوا ہے کہ حالیہ دو برسوں میں سوئٹزرلینڈ کے گلیشیئرز 10 فی صد تک پگھل گئے ہیں۔
گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا آب و ہوا کی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کی شدت میں اضافےکی نشاندہی کے ساتھ ساتھ مسقتبل کے خطرات کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ پہاڑوں سے برف کا خاتمہ زندگی کی بقا کے لیے سنگین خطرات پیدا کر سکتا ہے۔
گلیشیئر مانیٹرنگ سینٹر (جی ایل اے ایم او ایس) کے ماہرین گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سوئٹزرلینڈ میں چھوٹے بڑے گلیشیئرز کی تعداد 1400 کے لگ بھگ ہے۔
سوئٹزر لینڈ کی اکیڈمی آف سائنسز نے بلند و بالا پہاڑوں کے اس ملک میں برف کے تیزی سے پگھلاؤ کے بارے میں کہا ہے کہ پہاڑوں سے برف غائب ہوئے کی رفتار کی تیزی کا اندازہ اس سے لگایاجا سکتا ہے کہ حالیہ دو برسوں میں برف کی اتنی مقدار پگھل گئی ہے جتنی کہ سال 1960 اور 1990 کی 30 سالہ مدت کے دوران پگھلی تھی۔ گلیشیئرز ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں اور بہت سے چھوٹے گلیشیئرز تو سرے سے غائب ہی ہو گئے ہیں۔
گلیشیئرز سے متعلق سائنسی ادارے جی ایل اے ایم او ایس کے سربراہ میتھائس حس نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ سوئٹزر لینڈ کے ایک ہزار کے لگ بھگ چھوٹے گلیشیئرز ختم ہو چکے ہیں اور اب بڑے گلیشیئرز بھی پگھل کر چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گلیشیئرز آب و ہوا کی تبدیلی کے سفیر ہیں۔ وہ ہمیں وضاحت کے ساتھ یہ بتا رہے ہیں کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت کیا کچھ تبدیل کر رہا ہے۔ اگر آپ موسموں کا توازن قائم رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو لازمی طور پر کچھ نہ کچھ گلیشیئرز کو ختم ہونے سے بچانا ہو گا ۔ جس کے لیے آپ کو فوری طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
گلیشیئرز زمین کے درجہ حرارت کو اعتدال میں رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ سورج سے آنے والی حرارت کی لہروں کو واپس خلا میں پلٹ دیتے ہیں۔ جب گلیشیئرز کے حجم میں کمی آتی ہے تو سورج سے آنے والی حرارت کی زیادہ مقدار کو زمین میں جذب ہونے کا موقع ملتا ہے۔ جس کا دوہرا نقصان ہوتا ہے۔
پہلا یہ کہ زمین کا درجہ حرارت بڑھنے سے پہاڑوں پر کم برف پڑتی ہے۔ اگر پہاڑوں پر گلیشیئرز موجود ہوں تو برف کی نئی تہہ انہیں ڈھانپ لیتی ہے۔ اور انہیں سورج کی براہ راست حرارت سے بچاتی ہے۔ جس سے ان کے پگھلنے کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔
دوسرا نقصان یہ ہے کہ اگر سردیوں میں برف باری کم ہو تو گلیشیئر براہ راست سورج سے آنے والی حرارت کی لہروں کا ہدف بن کر تیزی سے پگھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے جس سے ایک ہزار کے قریب چھوٹے گلیشیئر پانی بن کر بہہ گئے ہیں۔
سائنس دانوں کی ٹیم نے بتایا کہ سوئٹزر لینڈ کے پہاڑوں پر زیادہ تر برف فروری میں پڑتی ہے۔ لیکن اب 2007 کے مقابلے میں برف پڑنے کی مقدار میں 30 فی صد تک کمی ہو چکی ہے۔
سوئٹزرلینڈ میں گلیشیئرز پر تحقیق کرنے والی ماہرین کی ٹیم نے بتایا کہ ساڑھے 10 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع گلیشیئرز کی موٹائی میں اوسطاً 10 فٹ تک کمی ریکارڈ گئی ہے۔
سوئٹزر لینڈ کے موسمیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گرم موسم کی وجہ سے اس سال برف پگھلنے کا آغاز معمول سے تقریباً چار ہفتے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پہاڑوں کی جن بلندیوں پر پہلے سال بھر درجہ حرارت صفر ڈگری سیٹی گریڈ ہوا کرتا تھا جس کی وجہ سے وہاں پورا سال برف جمی رہتی تھی، اب وہاں کا درجہ حرارت صفر سے بڑھ گیا ہے اور وہاں بھی برف پگھلنا شروع ہو گئی ہے۔
ماہرین نے بتایا کہ صفر درجہ حرارت اب لگ بھگ 17 ہزار 400 فٹ کی بلندی سے شروع ہو رہا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس بلندی سے نیچے واقع گلیشیئرز اب غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔
پہاڑوں سے نیچے وادیوں اور میدانی علاقوں میں زمین کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت نئی قیامت ڈھا رہا ہے۔ اسپین سے آنے والی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ دو اکتوبر کو درالحکومت میڈرڈ کا درجہ حرارت 40 ڈگری فارن ہائیٹ رہا۔ جب کہ ان دنوں وہاں کا درجہ حرارت 32 ڈگری فارن ہائیٹ کے لگ بھگ ہوتاتھا۔
خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسپین میں جب سے موسم کا ریکارڈ رکھا جانے لگا ہے، دو اکتوبر کے درجہ حرارت نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔
گلوبل وارمنگ کے اثرات کا ایک منظر امریکی ریاست ایریزونا میں دیکھنے میں آ یا ہے، جہاں خشک سالی نے ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔
ایریزونا میں 15 جون سے 30 ستمبر کا عرصہ برسات کا موسم کہلاتا ہے۔ اس صحرائی خطے میں بارش کا اوسط ویسے ہی کم ہے، لیکن اس سال موسم برسات میں صرف صفر اعشاریہ ایک پانچ انچ برسات ہوئی جو نہ ہونے کے برابر ہے۔
ایریزونا میں سن 1895 سے موسم کا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے۔ اس سال بارش کا اوسط 128 برسوں کا کم ترین اوسط ہے۔
(اس تحریر کے لیے ایسوسی ایٹڈ پریس، اے ایف پی اور رائٹرز سے مواد لیا گیا ہے)
فورم