سپریم کورٹ آف پاکستان نے جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے اُن کی فوری رہائی کا حکم دیا ہے۔
میر شکیل الرحمٰن کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے سرکاری زمین غیر قانونی طور پر الاٹ کرانے کے الزام میں رواں سال 12 مارچ کو گرفتار کیا تھا۔
پیر کو میر شکیل الرحمٰن کی سپریم کورٹ میں درخواست ضمانت پر سماعت جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی۔ بینچ میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی امین شامل تھے۔
میر شکیل الرحمٰن کے وکیل امجد پرویز ایڈوکیٹ نے عدالت میں دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ میر شکیل کو الاٹ زمین سے قومی خزانے کو ایک پیسے کا بھی نقصان نہیں ہوا۔
سماعت کا آغاز ہوا تو امجد پرویز نے کہا کہ میر شکیل کو 12 مارچ کو گرفتار کیا گیا۔ اس کیس میں چار لوگوں کے خلاف ریفرنس دائر ہوا جن میں میاں محمد نواز شریف بهی ہیں۔
امجد پرویز نے کہا کہ استغاثہ کا کہنا ہے کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ، ڈی جی ایل ڈی اے اور ڈائریکٹر لینڈ نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ لیکن درخواست گزار کے علاوہ کسی ایک کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا۔ چیئرمین نیب نے ڈی جی ایل ڈی اے اور ڈائریکٹر لیند دونوں کے وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کیے۔
امجد پرویز نے کہا کہ اس پورے معاملے میں قومی خزانے کا ایک دھیلے کا نقصان نہیں ہوا۔ میر شکیل الرحمٰن کو کنال، کنال کے 54 قانون کے مطابق پلاٹ ملے۔
جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے قومی خزانے کو نقصان کا کوئی سوال اٹهایا ہے جس پر امجد پرویز نے کہا کہ نیب نے ایک روپے کے نقصان کا سوال نہیں اٹهایا، اس کیس میں ایک نجی شخص نے شکایت کی ہے۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا کہ کیا اس وقت میر شکیل کے قبضے میں 54 کنال سے زیادہ اراضی ہے،؟ جس پر امجد پرویز نے کہا کہ میر شکیل الرحمٰن پر 64 لاکھ 75 ہزار جب کہ چار کنال 12 مرلے اراضی زائد قبضے میں ہونے کا الزام ہے۔
اُن کے بقول یہ اراضی راستے کے طور پر دی گئی 60 ہزار روپے کنال رقم رکھی گئی، امجد پرویز نے کہا کہ نیب کا یہ کیس نہیں کہ اراضی کی رقم ادا نہیں کی گئی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے نیب سے استفسار کیا کہ کیا یہ رقم آج بھی واجب الادا ہے جس پر ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ جی یہ کیس بھی ہے۔
امجد پرویز نے کہا کہ ایل ڈی اے کو رقم پالیسی کے مطابق ادا کردی گئی ہے، نیب کا کیس ہے کہ پالیسی کے تحت رقم ادا نہیں کرنی تھی بلکہ مارکیٹ ریٹ پر ادا کرنی تھی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ کیس پالیسی کے تحت درست بنتا ہے؟ اس سارے عمل میں کوئی چیز بھی پالیسی کے برعکس نہیں تھی۔ نیب نے بتانا ہے جس جج کے پاس میر شکیل کا کیس ہے اس کے پاس اس سے پہلے کتنے مقدمات ہیں۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد میر شکیل الرحمٰن کی ضمانت دس کروڑ کے ضمانتی مچلکوں کے عوض منظور کر لی گئی اور انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
میر شکیل الرحمن پر الزام کیا ہے؟
12 مارچ کو احتساب کے قومی ادارے نے جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو اراضی سے متعلق کیس میں گرفتار کیا تھا۔ ترجمان نیب کی طرف سے جاری بیان میں بتایا گیا تھا کہ ادارے نے 54 پلاٹوں کی خریداری سے متعلق کیس میں میر شکیل الرحمٰن کو لاہور میں گرفتار کیا۔
نیب کا کہنا تھا کہ میر شکیل الرحمٰن متعلقہ زمین سے متعلق نیب کے سوالات کے جواب دینے کے لیے دوسری بار نیب میں پیش ہوئے تاہم وہ بیورو کو زمین کی خریداری سے متعلق مطمئن کرنے میں ناکام رہے جس پر انہیں گرفتار کیا گیا۔
میر شکیل الرحمٰن کو 28 فروری کو طلبی سے متعلق جاری ہونے والے نوٹس کے مطابق انہیں 1986 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کی جانب سے غیر قانونی طور پر جوہر ٹاؤن فیز 2 کے بلاک ایچ میں الاٹ کی گئی زمین سے متعلق بیان ریکارڈ کرانے کے لیے 5 مارچ کو نیب میں طلب کیا گیا تھا۔
اس کیس کے حوالے سے جنگ گروپ کے ترجمان کا کہناتھا کہ یہ پراپرٹی 34 برس قبل خریدی گئی تھی جس کے تمام شواہد نیب کو فراہم کردیے گئے تھے جن میں ٹیکسز اور ڈیوٹیز کے قانونی تقاضے پورے کرنے کی دستاویزات بھی شامل ہیں۔
نیب نے غیرقانونی پلاٹ کیس میں لاہور کی احتساب عدالت میں نواز شریف اور میر شکیل الرحمٰن سمیت ہمایوں فیض اور سابق ڈائریکٹر لینڈ ڈیولپمنٹ میاں بشیر احمد کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا۔
بلاول بھٹو زرداری کی مبارک باد
پاکستان پیپلز پارٹی کے ترجمان کے مطابق چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے میر شکیل الرحمٰن کے صاحبزادے میر ابراہیم کو ٹیلی فون کیا اور میر شکیل کی ضمانت پر مبارک باد دی۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آزاد میڈیا کو دبانے کے تمام حربے ناکام ہوں گے، میر شکیل کی ضمانت پر رہائی کا حکم صحافتی آزادی کی جدوجہد کی جیت ہے۔
میر شکیل کی گرفتاری پر اجتجاج
میر شکیل الرحمٰن کی رہائی کے حوالے سے ان کے دفاتر کے باہر ایک عرصہ سے احتجاجی کیمپس لگے ہوئے تھے اور مختلف صحافتی تنظیموں نے ان کی گرفتاری کے خلاف بھرپور اجتجاج کیا لیکن انہیں اب نو ماہ کے بعد سپریم کورٹ کی طرف سے ضمانت دی گئی ہے۔
میر شکیل الرحمٰن اور موجودہ وزیراعظم عمران خان کے درمیان گزشتہ دورِ حکومت میں ان کی پالیسی پر اختلافات بھی تھے اور عمران خان کے دھرنے کے دوران جنگ گروپ پر الزامات عائد کیے گئے اور انہیں الیکشن میں دھاندلی کے لیے مسلم لیگ (ن) کا پارٹنر قرار دیا گیا۔
لیکن جنگ گروپ ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد کے ڈی چوک میں 126 دن تک حکومت مخالف دھرنے کے دوران جنگ اور جیو کے دفاتر پر کئی بار پتھراؤ بھی کیا گیا۔
میر شکیل الرحمٰن کی ضمانت پر مختلف صحافتی تنظیموں اور صحافیوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔