راؤ انوار کی حفاظتی ضمانت منظور، 16 فروری کو پیش ہونے کا حکم

راؤ انوار نے خط میں یہ درخواست بھی کی کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں صوبۂ سندھ کے سوا کسی بھی اور صوبے کی سکیورٹی ایجنسیز کے نمائندوں کو شامل کیا جائے۔

پاکستان کی عدالتِ عظمٰی نے سندھ پولیس کے سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی ایک ماورائے عدالت قتل کیس میں حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے اُنھیں 16 فروری کو عدالت کے سامنے پیش ہونے کا کہا ہے۔

کراچی میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ سمیت چار افراد کو مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل کرنے سے متعلق مقدمے کی سماعت منگل کو سپریم کورٹ میں ہوئی۔

اس موقع پر عدالتِ عظمٰی کے انسانی حقوق کے سیل کو راؤ انوار کی طرف سے لکھا گیا خط چیف جسٹس ثاقب نثار کو پڑھ کو سنایا گیا جس میں راؤ انوار نے اپنی بے گناہی کا دعویٰ کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت اس معاملے کی تفتیش کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائے۔

راؤ انوار نے خط میں یہ درخواست بھی کی کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں صوبۂ سندھ کے سوا کسی بھی اور صوبے کی سکیورٹی ایجنسیز کے نمائندوں کو شامل کیا جائے۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے خط پر موجود دستخطوں کی تصدیق کے لیے کمرۂ عدالت میں موجود افراد سے پوچھا تو ان میں سے بعض نے کہا کہ بظاہر یہ دستخط راؤ انوار ہی کے ہیں۔

اس پر عدالت نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس میں آئی ایس آئی اور انٹیلی بیورو کا ایک ایک افسر شامل ہو گا جب کہ تیسرے افسر سے متعلق عدالت فیصلہ کرے گی۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کہا کہ جب تک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ نہیں آ جاتی اس وقت تک راؤ انوار کو گرفتار نہ کیا جائے۔

اس سے قبل منگل کو جب مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو سندھ پولیس کے سربراہ اے ڈی خواجہ نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے راؤ انوار کو تاحال گرفتار نہ کر سکنے پر اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔

راؤ انوار نے 13 جنوری کو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں نقیب اللہ محسود سمیت چار مشتبہ شدت پسند پولیس مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا تھا۔ راؤ انوار نے الزام لگایا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والوں کا تعلق شدت پسند تنظیموں سے تھا۔

لیکن بعد میں نقیب اللہ کے دوستوں، رشتہ داروں اور والدین کی طرف سے کہا گیا تھا کہ نقیب کو ماڈل بننے کا شوق تھا اور وہ کراچی میں ایک دکان کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔

نقیب اللہ کا تعلق جنوبی وزیرستان کے محسود قبیلے سے تھا۔

بعد ازاں نقیب اللہ کی تصاویر کے ساتھ پہلے سماجی میڈیا پر ایک مہم شروع ہوئی تھی جس کے بعد اس مبینہ ماورائے عدالت قتل کے خلاف جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے محسود قبیلے کے افراد نے اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا تھا۔

وفاقی دارالحکومت میں نیشنل پریس کلب کے باہر 10 روز تک جاری دھرنا گزشتہ ہفتے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی تحریری یقین دہانی کے بعد ختم کیا گیا۔

مظاہرین کا ایک بڑا مطالبہ یہ تھا کہ نقیب اللہ کے مبینہ ماورائے عدالت قتل میں ملوث پولیس افسر راؤ انوار کو گرفتار کیا جائے، جس پر وزیراعظم کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ راؤ انوار کی جلد از جلد گرفتاری کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔