پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں گزشتہ ماہ قبائلی نوجوان نقیب اللہ کی ہلاکت کے خلاف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک ہفتہ پہلے شروع ہونے والے دھرنے کے بعض قبائلی عمائدین نے منگل کو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ملاقات کے بعد احتجاج ختم کرکے واپس جانے کا فیصلہ کیا تاہم بعض قبائلی افراد اب بھی دھرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت جب تک ان کے مطالبات منطور کرنے کی تحریری یقینی دہانی نہیں کرواتی وہ اپنا دھرنا جاری رکھیں گے۔
گزشتہ جمعرات کو ایک بڑی تعداد میں قبائلی افراد نے نقیب اللہ کے مبینہ قتل کےخلاف احتجاج کرتے ہوئے اسلام آباد میں واقع نیشل پریش کلب کے باہر دھرنا شروع کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ نقیب اللہ کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے والے پولیس افسر راؤ انوار کی گرفتاری تک وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔
گزشتہ روز وزیر اعظم عباسی سے ملاقات کے بعد بعض قبائلی عمائدین نے احتجاج ختم کرتے ہوئے واپس جانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد دھرنے میں شریک افراد کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ تاہم بعض منتظمین اب بھی یہ دھرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے جب تک حکومت انہیں مطالبات تسلیم کیے جانے کی ٹھوس یقینی دہانی نہیں کروا دیتی۔
اگرچہ یہ احتجاج دھرنا نقیب اللہ کے مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے مطالبے سے شروع ہوا تھا لیکن اب قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے دیگر مطالبات بھی سامنے لا رہے ہیں۔
احتجاجی مظاہرے میں شریک نثار عباس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ " جب تک نقیب اللہ کو انصاف نہیں ملتا ہے، جب تک فاٹا سے بارودی سرنگوں کو صاف نہیں کیا جاتا، جبکہ تک لاپتا افراد کو بازیاب کروا کر عدالت میں پیش نہیں کر دیا جاتا، اس وقت تک ہمارا دھرنا جاری رہے گے۔"
وزیر اعظم عباسی نے گزشتہ روز قبائلی عمائدین سے ملاقات کے دوران کہا کہ نقیب اللہ کا معاملہ صرف صوبائی حکومت کا نہیں بلکہ یہ ریاست کا بھی معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ نقیب کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے حکومت ہر ممکن کوشش کرے گی اور اور بارودی سرنگوں کی وجہ سے متاثر ہونے والے افراد کو معاوضہ بھی فراہم کرے گی۔
واضح رہے کہ نقیب اللہ کا تعلق جنوبی وزیرستان کے محسود قبیلے سے تھا اور اُن کے مبینہ قتل کی خبر منظرِ عام پر آنے کے بعد نہ صرف سماجی میڈیا پر اس کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی بلکہ ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔
نقیب اللہ محسود کے قتل کے معاملے پر سپریم کورٹ نے بھی از خود نوٹس لے رکھا ہے جب کہ گزشتہ ہفتے چیف جسٹس ثاقب نثار نے سول اور فوجی اداروں کو نقیب اللہ محسود قتل کے ملزم پولیس افسر راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کی ہدایت کی ہے۔
نقیب اللہ کے قتل کے بعد سند ھ پولیس کےافسرراؤ انوار کو اُن کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور پولیس کی ایک تحقیقاتی ٹیم اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔
راؤ انوار روپوش ہیں اور پولیس انہیں گرفتار کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ اگرچہ افغان حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں جاری پشتونوں کے ان مظاہروں پر ابھی تک کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا، تاہم افغان پارلیمنٹ کے اراکین کا کہنا تھا کہ اس مسئلے پر کابل کی خاموشی کے باوجود، افغان عوام پاکستان میں موجود پشتونوں کے ساتھ ہیں۔ ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے سول سوسائٹی کے ارکان نے کہا کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے پشتونوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ ان کی ہر طرح سے مدد کے لیے تیار ہیں۔