سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کی رپورٹ پر جمعرات کو ہونے والی سماعت میں وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل شروع کیے اور تین رکنی بینچ کے سامنے چند نئی دستاویزات پیش کیں۔
جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پیر سے اس رپورٹ پر سماعت شروع کی تھی اور اب تک درخواست گزار جماعتوں تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ اپنے اپنے دلائل پیش کر چکی ہیں جب کہ وزیراعظم کے وکیل نے بدھ کو اپنے دلائل مکمل کیے تھے۔
سلمان اکرام راجہ کی طرف سے نئی دستاویزات پیش کیے جانے پر بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جب بھی کوئی سوال اٹھایا جاتا ہے تو نئی دستاویزات پیش کر دی جاتی ہیں۔
اس پر وکیل نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی اپنے سامنے پیش کی گئی دستاویزات کو جعلی قرار دے چکی ہے۔
انھوں نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ پر اپنے موکل کے اعتراضات پیش کرتے ہوئے اس رپورٹ کو مسترد کرنے کی استدعا کی۔
اس پر بینچ کا کہنا تھا کہ عدالت رپورٹ کے نتائج پر نہیں بلکہ شواہد کی بنیاد پر قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی۔
جمعرات کو ہونے والے سماعت میں ایک بار پھر بینچ کی طرف سے کہا گیا کہ ڈیڑھ سال سے پوچھ رہے ہیں کہ شریف خاندان کا جدہ میں پیسہ کہاں سے آیا لیکن اس کا جواب کسی فریق کی طرف سے نہیں دیا گیا۔ اس پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جواب دے چکے ہیں لیکن یہ الگ بات ہے کہ عدالت مانتی نہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے وکیل کو متنبہ کیا کہ اگر بچے رقوم کے ذرائع فراہم کرنے میں ناکام رہے تو نواز شریف کو اس کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ سرکاری عہدے پر وہ فائز ہیں۔
سلمان اکرم راجہ کے دلائل جاری تھے کہ معاملے کی سماعت جمعے کی صبح تک ملتوی کر دی گئی۔
سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ کے باہر وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے کبھی اپنے منصب کا غیر ضروری استعمال نہیں کیا اور اس بارے میں ان کے خلاف کوئی ثبوت بھی سامنے نہیں آیا۔
"ہمیں امید ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ ان تمام مینا بازار، تماشا لگانے والوں کی درخواستوں کو مسترد کرے گی اور یہ بات بھی ثابت ہو جائے گی کہ وزیراعظم نواز شریف جیسے پہلے دن کہا تھا کہ نہ پاناما کیس سے ان کا کوئی تعلق ہے اور نہ پاکستان کے اندر کسی بھی کرپشن کیس سے کوئی تعلق۔"
اس معاملے پر ایک درخواست گزار حزب مخالف کی ایک جماعت، جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بار پھر اس مطالبے کو دہرایا کہ وزیراعظم اب بھی اپنے منصب سے علیحدہ ہو جائیں تو بہتر ہو گا۔
"وزیراعظم ذمہ داری کا ثبوت دیں۔۔۔اگر وہ استعفیٰ دے دیں تو قوم پر احسان ہوگا، ان کے وقار میں اضافہ ہو گا اور ہم پھر کہیں گے کہ اگر عدالت نے کہا کہ یہ مجرم نہیں ہیں تو اسمبلی میں اب بھی ان کی اکثریت ہے وہ پھر بھی وزیراعظم بن سکتے ہیں۔
حکومت اور وزیراعظم مستعفی ہونے کے مطالبات کو مسترد کرتے آ رہے ہیں۔
ایک روز قبل ہونے والی سماعت میں بینچ کی طرف سے یہ ریمارکس سامنے آئے تھے کہ شریف خاندان کی لندن میں جائیداد کے علاوہ سب کچھ واضح ہے اور ابھی تک اس سوال کا جواب نہیں مل پا رہا ہے کہ لندن کے ان فلیٹس کا حقیقی مالک کون ہے۔
وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کے وکیل طارق حسن بھی اپنے دلائل دے چکے ہیں جس میں انھوں نے جے آئی ٹی کی طرف سے اپنے موکل کو اس معاملے میں بلا وجہ گھسیٹنے کا موقف اپنایا تھا۔
سپریم کورٹ کی طرف سے تشکیل دی گئی چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ گزشتہ پیر کو عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی گئی تھی جس میں شریف خاندان کے مالی اثاثوں سے متعلق عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ان افراد کے خلاف مقدمات قائم کرنے کا بھی کہا گیا تھا۔
وزیراعظم اور حکومتی عہدیداران اس رپورٹ کو "بدنیتی" پر مبنی قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں۔