سپریم کورٹ نے گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری روکنے سے متعلق متعلقہ حلقوں سے تجاویز طلب کرلی ہیں۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ سکیورٹی ادارے بعض دفعہ اپنی پوزیشن پر سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ غیرقانونی پیوند کاری کے معاملے میں بہت پیسہ ملوث ہے۔ غیرقانونی پیوند کاری میں صرف عطائی نہیں، ڈاکٹرز بھی ملوث ہیں۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بدھ کو گردوں کی غیرقانونی پیوند کاری سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ گردے نکالنا بہت بڑا ناسور ہے۔ گردے نکالنے سے بڑھ کر استحصال کیا ہوسکتا ہے؟ اس ناسور کے خاتمے کے لیے کیا اقدامات ہوسکتے ہیں؟ اس دھندے میں ملوث لوگ کالی بھیڑیں ہیں۔
پاکستان میں ماضی میں گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔
چند سال قبل سرگودھا، جھنگ، ملتان، ڈیرہ غازی خان اور دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے بعض افراد نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے غربت اور مالی ضرورت کے باعث اپنے گردے بیچ دیے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ گردوں کی غیر قانونی ٹرانسپلانٹ کے لیے بیرونِ مُلک سے بھی مریض پاکستان آتے ہیں جب کہ ایسے ایک غیر قانونی آپریشن کے 50 سے 60 لاکھ روپے تک وصول کیے جاتے ہیں۔
گزشتہ سال راولپنڈی اسلام آباد میں بھی گردوں کی غیرقانونی پیوندکاری میں ملوث ایک گروہ کو پکڑا گیا تھا جبکہ پنجاب میں ایک پورے گاؤں سے بھی گردے خریدنے کا انکشاف ہوا تھا۔
بدھ کو سماعت کے دوران عدالتی معاون ڈاکٹر نقی طفر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری عرصے سے ہورہی ہے۔ خفیہ جگہوں پر گردے نکالے اور ڈالے جاتے ہیں۔ پیوند کاری کو روکنے کے لیے قومی اور لوکل سطح پر کوئی اتھارٹی نہیں ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر موجود اتھارٹیز با اختیار نہیں۔
چیف جسٹس نے ڈاکٹر مرزا سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پیوندکاری سے متعلق وفاقی اور صوبائی قوانین کا جائزہ لیا ہے؟ اگرقوانین درست ہیں تو مزید قانون سازی کی ضرورت نہیں۔ ایسی صورت میں اصل معاملہ قانون کی عمل داری کا ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ انسانی اعضا ٹرانسفر نہیں ہو سکتے۔ کون سے اعضا ہیں جن کی پیوند کاری ہو سکتی ہے? آنکھ کا عطیہ کوئی انسان اپنی زندگی میں کر سکتا ہے؟ اعضا عطیہ کرنے کے لیے کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قانون سازوں کو قانون بنانے کے لیے مجبور نہیں کر سکتے لیکن قانون یا کسی معاملے میں کمی کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ اعضا عطیہ کرنے سے متعلق تحریری سفارشات دیں۔
ڈاکٹر مرزا نقی نے کہا کہ اعضا کی پیوند کاری کا طریقۂ کار طے کرنے کی ضرورت ہے۔ غیر قانونی پیوند کاری کے لیے بیرونِ ملک سے بھی لوگ آتے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے اسفتسار کیا کہ خفیہ جگہوں پر پیوند کاری کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟ اس پر ڈاکٹر مرزا نقی نے کہا کہ سکیورٹی اداروں کے ذریعے غیرقانونی پیوند کاری کو روکا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ غیر قانونی پیوند کاری کے معاملے میں بہت پیسہ ملوث ہے۔ میرے تجربے کے مطابق دل کی پیوند کاری ابھی اتنی کامیاب نہیں ہے۔ اس ناسور کے خاتمے کے لیے تجاویز 14 مارچ تک دیں۔ غیر قانونی پیوند کاری کے خاتمے کے لیے لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
کیس کی آئندہ سماعت 17 مارچ کو کراچی رجسٹری میں ہوگی۔