سپریم کورٹ نے نقیب اللہ محسود قتل ازخود نوٹس کیس میں کراچی پولیس کے سابق افسر راؤ انوار کو دی جانے والی عدالتی حفاظتی ضمانت کا حکم نامہ واپس لیتے ہوئے عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر انہیں توہینِ عدالت کا شو کاز نوٹس جاری کردیا ہے۔
عدالت نے تمام خفیہ ایجنسیوں کو راؤ انوار کو تلاش کرنے اور پولیس افسر کے تمام بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم بھی دے دیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعے کو نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت کی جس میں راؤ انوار حفاظتی ضمانت ملنے کے باوجود پیش نہیں ہوئے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ کیا راؤ انوار اسلام آباد میں ہی ہے؟ جس پر اے ڈی خواجہ نے بتایا کہ راؤ انوار نے واٹس ایپ کال کی تھی جو ٹریس نہیں ہوئی۔ راؤ انوار کو تحقیقات پر تحفظات تھے۔ ہم نے شفاف تحقیقات کے لیے نئی ٹیم تشکیل دی۔
راؤ انوار کی عدم پیشی پر عدالت نے سماعت میں کچھ دیر کے لیے وقفہ کردیا۔
یاد رہے کہ 13 فروری 2018ء کو ہونے والی گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے ماورائے عدالت قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انور کی حفاظتی ضمانت منظور کی تھی جب کہ پولیس کو راؤ انوار گرفتار نہ کرنے ہدایت کرتے ہوئے انہیں 16 فروری کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار نے دہشت گرد قرار دے کر کراچی میں ایک پولیس مقابلے میں قتل کردیا تھا۔
سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی کے احتجاج کے بعد وزیرِ داخلہ سندھ نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنائی تھی جس نے گواہان کے بیانات اور شواہد کی روشنی میں پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیا تھا۔
اسی دوران سپریم کورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لے لیا تھا۔ نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے بعد ملک بھر میں محسود قبائل کی جانب سے مظاہرے کیے گئے تھے جب کہ کراچی اور اسلام آباد میں کئی روز تک دھرنا بھی جاری رہا تھا۔
جمعے کو وقفے کے بعد جب سپریم کورٹ میں سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ خاصا وقت گزر گیا ہے، لگتا ہے راؤ انوار نہیں آنا چاہتے۔ کیا آپ کو بھی کوئی سراغ نہیں ملا۔ اب کیا کیا جائے؟
اس پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے کہا کہ راؤ انوار نے مجھے واٹس اپ پر کال کی تھی۔ راؤ انوار نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے۔ غالباً سپریم کورٹ کو خط راؤ انوار نے ہی لکھا تھا۔
آئی جی سندھ نے بتایا کہ نقیب اللہ کیس میں 9 ملزمان گرفتار کیے جا چکے ہیں جب کہ 12 تاحال مفرور ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ راؤ انوار کو ایک موقع دیا گیا تھا۔ ان کے خط پر ہم نے مثبت ردِ عمل دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سندھ پولیس کی کوششیں ٹھیک ہیں مگر نتائج نہیں آ رہے۔ عدالتی حکم پر عمل درآمد پر کارروائی پیشی کے بعد ہی ہو سکتی ہے۔ امید ہے دیر سے ہی صحیح راؤ انوار کو تلاش کر لیا جائے گا۔ راؤ انوار نے آئی جی سے رابطہ کیا مگر عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا اپنا حکم واپس لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملزم جہاں بھی ہوگا ایک دن ڈھونڈ نکالیں گے۔ راؤ انوار کی گرفتاری پولیس کا کام ہے۔
سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کے تمام اکاؤنٹس منجمد کرنے اور نقیب قتل کیس کے تمام گواہان کی سکیورٹی یقینی بنانے کا حکم بھی دیا۔
عدالت نے ملزم کو گرفتار کرنے اور آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کو سندھ پولیس کی مدد کرنے کی ہدایت کی ہے۔
عدالت نے حساس اداروں سے راؤ انوار کی گرفتاری میں معاونت کی تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں۔ کیس کی مزید سماعت 15 روز بعد ہوگی۔