چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے نواز شریف اور مریم نواز کی سزا معطلی کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ خواجہ حارث کا جواب کافی مفصل ہے۔ آپ کو گزشتہ سماعت پر بھی کہا تھا کہ اپنے نکات تحریری طور پر دیں۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ دہشت گردی کے کیس میں بھی عدالت نے سزائیں منسوخ نہیں کی تھیں۔ سزائے موت کے مقدمات میں بھی سزا معطل ہوسکتی ہے۔ سزا معطلی پرسپریم کورٹ کے کئی فیصلے موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمے کے دوران مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ڈاکٹر نے بتایا کہ جب خواجہ حارث پیش ہوتے ہیں تو میرے دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ اصول دیکھنا ہے کہ اپیلوں کی سماعت سے پہلے سزا معطلی سے کیس کا میرٹ متاثر تو نہیں ہوا۔ اگر ہم اس کیس کو قابل سماعت قرار دیں اورضمانت برقرار رکھیں تو سزامعطلی والا معاملہ دیکھ لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ درخواست منظور کرنے کے بعد ممکن ہے کہ لارجر بینچ بنانا پڑے۔ لارجر بینچ کے حوالے سے فریقین کے وکلاء معاونت کریں۔ تاہم لازمی نہیں کہ لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔
جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ میرے ذہن میں 3 بنیادی سوال ہیں۔ دہشت گردی کا مقدمہ کریمنل کیس ہوتا ہے۔ موجودہ کیس نیب قانون کا تھا۔ اصل سوال ضمانت نہیں سزا کی معطلی کا ہے۔ کیا سزا معطلی میں شواہد کا جائزہ لیا جا سکتا ہے؟ دیکھیں گے کہ کیا ہائی کورٹ نے شواہد کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ پراعتماد کرنا ہوگا۔ ہمیں بداعتمادی کی بیماری سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔ اگر فوجداری مقدمات کے ماہرججز کو شامل کریں توآپ کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ آصف سعید کھوسہ کا فوجداری مقدمات کا بڑا تجربہ ہے۔
نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ انہیں جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بینچ میں شامل کئے جانے پر کوئی اعتراض نہیں۔
عدالت نے نیب کی اپیل قابلِ سماعت قرار دے دی جبکہ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزا معطلی کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔ کیس کی مزید سماعت چیف جسٹس کے دورہ لندن سے واپس آنے کے بعد 12 دسمبر تک موخر کردی گئی۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کیا ملی؟؟
6 جولائی کو شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر 80 لاکھ پاؤنڈ (ایک ارب 10 کروڑ روپے سے زائد) اور مریم نواز پر 20 لاکھ پاؤنڈ (30 کروڑ روپے سے زائد) جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے لندن میں موجود ایون فیلڈ پراپرٹی ضبط کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔
19 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کی جانب سے سزا دینے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔بعد ازاں 22 اکتوبر کو نیب نے رہائی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا جسے اب سپریم کورٹ آف پاکستان نے باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرلیا ہے۔