سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ازخود نوٹس واپس لے لیا ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ سو موٹو کا اختیار صرف چیف جسٹس استعمال کر سکتے ہیں۔ لہذٰا کسی بینچ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں، کوئی بھی بینچ چیف جسٹس کو نوٹس لینے کی سفارش کر سکتا ہے۔
جمعرات کو اپنے حکم نامے میں عدالت نے صحافیوں کی درخواست چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے رکھنے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ درخواست بدستور موجود ہے اور چیف جسٹس ہی اس درخواست پر ازخود نوٹس لینے اور بینچ تشکیل دینے کا کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔
رواں ماہ 20 اگست کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمرۂ عدالت میں صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کے مبینہ واقعات پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین پیمرا، وزارتِ اطلاعات و نشریات کے اعلیٰ حکام سمیت کئی اداروں کے سربراہان کو طلب کیا تھا۔
لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے یہ ازخود نوٹس واپس لیے جانے پر یہ نوٹسز بھی غیر مؤثر ہو گئے ہیں۔ صحافیوں کی درخواست برقرار رکھی گئی ہے اور اب یہ درخواست چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے رکھی جائے گی جو اس پر کارروائی کے لیے بینچ تشکیل دینے سمیت کوئی بھی فیصلہ کر سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں فیصلہ سنانے کی کارروائی جمعرات کی شام سوا چار بجے شروع ہوئی جس کی سماعت بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال اور بینچ دیگر ارکان جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس قاضی امین، جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر نے کی۔ صحافیوں کی بڑی تعداد بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھی۔
عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے ازخود نوٹس لینے کے اصول بھی وضع کر دیے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ بینچز کی جانب سے لیے گئے تمام نوٹسز پر سماعت معمول کےمطابق ہو گی، تاہم بینچز کے نوٹسز پر سماعت چیف جسٹس کے تشکیل کردہ بینچ ہی کریں گے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ کوئی بینچ ازخود کسی کو طلب کر سکتا ہے اور نہ ہی رپورٹ منگوا سکتا ہے، ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کرنے کے لیے چیف جسٹس کی منظوری لازمی ہو گی۔
اس سے قبل کیس کی سماعت کے دوران دن میں کارروائی کا آغاز ہوا تو قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ صحافیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر کوئی دو رائے نہیں،صحافیوں کی درخواست برقرار ہے اس پر کارروائی بھی ہو گی۔
جسٹس عمر بندیال نے کہا کہ عدالت نے قانون اور ضابطے کے تحت کارروائی کرنی ہوتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف کچھ ہوا تو سپریم کورٹ دیوار بن کر کھڑی ہو گی، ملک کے آئین کا تحفظ اور بنیادی حقوق کا نفاذ عدلیہ کی ذمے داری ہے۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ صحافی عدالت سے کبھی مایوس ہوکر نہیں جائیں گے۔
سپریم کورٹ میں صحافیوں کی تنظیم پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے صدر امجد بھٹی نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ پانچ رکنی بینچ نے قانونی سوالات اٹھائے ہیں۔ قانونی نکتے پر صحافی دلائل یا معاونت نہیں کر سکتے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا آفس کھلا تھا تو صحافیوں کی طرف سے دراخوست وہاں کیوں نہیں دی گئی؟ اس پر صحافی عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون نے بینچ پر ہی اعتراض اٹھایا لیکن جسٹس قاضی امین نے کہا کہ بینچ پر اعتراض جرم نہیں لیکن اس نکتے پر دلائل دیں کہ سپریم کورٹ کے آفس کے ہوتے ہوئے وہاں درخواست کیوں نہیں دی گئی۔
اس پر جہانگیر جدون نے کہا کہ تسلیم کرتا ہوں کہ صحافیوں نے درخواست رولز کے مطابق دائر نہیں کی، لیکن اس پر جن اداروں کو نوٹس ہوا تو وہ درخواست پر اعتراض کر سکتے تھے۔
قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سو موٹو کیسز میں سرکاری ادارے درخواستوں پر اعتراض نہیں کر سکتے۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ صحافیوں کی درخواست میں فریقین کے نام بھی شامل نہیں، ایک صحافی نے دستخط 14 اگست اور دوسرے نے 20 اگست کو کیے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ سو موٹو اختیار کے استعمال کا طریقہ کیا ہو گا؟ جس پر جسٹس عمر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ہر بینچ سو موٹو لے سکتا ہے ،لیکن سوموٹو پر بینچ بنانا اور تاریخ مقرر کرنا چیف جسٹس کا کام ہے۔
اس موقع پر وائس چئیرمین پاکستان بار کونسل خوشدل خان نے کہا کہ کسی سائل کو مرضی کے بینچ میں مقدمہ لگانے کی اجازت نہیں۔ لیکن تیکنیکی نکات کی وجہ سے انصاف میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔
سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی نے روسٹرم پر آ کر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ازخود نوٹس لینے کا طریقۂ کار فل کورٹ میں طے ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ جج چیمبر میں بیٹھا ہو یا بینچ میں کہلاتا سپریم کورٹ ہی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ججز میں اتفاق اور اتحاد برقرار رہے، ججز میں اتحاد برقرار رہنا ادارے کے لیے بہتر ہے۔
لطیف آفریدی نے کہا کہ اگر عدلیہ میں کسی قسم کی کوئی تقسیم ہے تو اس کا بھی تاثر نہیں ملنا چاہیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کیس سے یہ تاثر گیا کہ ایک شخص کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ازخود نوٹس لینا سپریم کورٹ کا ہی اختیار ہے، ایسی کوئی مثال نہیں کہ سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے دوسرے بینچ کے فیصلے کو غیر مؤثر کیا ہو۔ ابھی ایک ہی معاملہ ایک بینچ میں زیر التوا ہے اس پر لارجر بینچ بھی تشکیل دے دیا گیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے لطیف آفریدی کے دلائل پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی باتیں دل سے نکل رہی ہیں ہم ان کی قدر کرتے ہیں، 20 اگست کا حکم بھی ہمارا ہی حکم تھا۔
عدالت نے دن ساڑھے گیارہ بجے اس کیس کا فیصلہ محفوظ کیا جو شام کو سنایا گیا اور اب پانچ رکنی لارجر بینچ نے چیف جسٹس آف پاکستان کو مزید با اختیار بناتے ہوئے ازخود نوٹس کا اختیار صرف چیف جسٹس آف پاکستان کو دے دیا ہے۔