نیب ترامیم کیس کا فیصلہ محفوظ: 'شارٹ اینڈ سوئٹ آرڈر ہو گا'

سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ان کی ریٹائرمنٹ قریب ہے اس سے قبل اس کیس کا فیصلہ سنا دیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وقت زیادہ نہیں ہے اس لیے شارٹ اور سوئٹ فیصلہ دیں گے۔

سپریم کورٹ نے 52 سماعتوں کے بعد کیس کی کارروائی مکمل کر کے منگل کو فیصلہ محفوظ کیا۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس کے ساتھ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ میں شامل ہیں۔

نیب ترامیم کے تحت اب نیب حراست میں لیے گئے کسی بھی شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش کرنے کا پابند ہو گا۔ نیب ترامیم کے تحت کئی کیسز دیگر عدالتوں کو منتقل بھی کر دیے گئے ہیں۔

کسی بھی ملزم کے خلاف ریفرنس یا کیس دائر ہونے کے ساتھ ہی اس کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ نیب کو گرفتاری سے قبل ثبوت کی دستیابی یقینی بنانا ہو گی۔

نئے قانون کے تحت اب نیب کو پابند کر دیا گیا ہے کہ جب بھی کسی ملزم کے خلاف ریفرنس بنایا جائے گا اس کیس کی تحقیقات کا آغاز چھ ماہ کے اندر کر دیا جائے گا۔

منظور کیے گئے بل میں ملزم کے اپیل کے حق کے لیے مدت میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ پہلے ملزم کسی بھی کیس میں 10 دن میں اپیل دائر کر سکتا تھا جب کہ اب اس کو 30 دن کی مہلت دی گئی ہے۔ اب کوئی بھی ملزم اپنے خلاف دائر کیس پر ایک ماہ میں اپیل دائر کر سکے گا۔

منگل کو سماعت کے دوران مزید کیا ہوا؟

پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں کہا کہ ترامیم کے بعد بہت سے زیر التوا مقدمات کو واپس کردیا گیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ان ترامیم میں کوئی ایسی شق ہے جس کے تحت مقدس مقدمات دوسرے فورمز کو بھجوائے جائیں؟ ان ترامیم کے بعد نیب کا بہت سا کام ختم ہو گیا۔

اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ پہلے تحقیقات ہوں گی جن کے جائزے کے بعد مقدمات دوسرے فورمز کو بھجوائے جائیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ واپس ہونے والے فورمز کے مستقبل بارے کسی کو معلوم نہیں، نہیں معلوم کہ یہ مقدمات دوسرے فورمز پر بھی جائیں گے یا نہیں؟ کیا نیب کے پاس مقدمات دوسرے فورمز کو بھیجنے کا کوئی اختیار ہے؟

خواجہ حارث نے کہا کہ ترامیم کے بعد ان مقدمات کو ڈیل کرنے کا اختیار نیب کے پاس نہیں، مقدمات دوسرے اداروں کو بھجوانے کا بھی کوئی قانونی اختیار نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب کے دفتر میں قتل ہو گا تو معاملہ متعلقہ فورم پر جائے گا۔ مقدمات دوسرے فورمز کو بھجوانے کے لیے قانون کی ضرورت نہیں. جو مقدمات بن چکے وہ کسی فورم پر تو جائیں گے۔ دوسرے فورمز کو مقدمات بھجوانے کا اختیار نہیں مل رہا اس بارے ضرور پوچھیں گے۔

SEE ALSO:

پاکستان کی طرح بھارت میں بھی الیکشن پر بحث کیوں ہو رہی ہے؟توشہ خانہ کیس میں سزا معطل: 'قیدی نمبر 804 کو رہا نہیں ہونے دیا جائے گا'توشہ خانہ کیس: 'بادیٔ النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں'

خواجہ حارث نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نیب ترامیم سے فائدہ نہیں اٹھا رہے، ترامیم کے تحت دفاع آسان ہے لیکن نیب کو بتا دیا ہے کہ فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ زیرالتوا تحقیقات اور انکوائریاں ترامیم کے بعد سردخانے کی نذر ہو چکی ہیں، تحقیقات منتقلی کا مکینزم بننے تک عوام کے حقوق براہ راست متاثر ہوں گے۔

'فوجی افسران کے خلاف آرمی ایکٹ میں سزائیں موجود ہیں'

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ فوجی افسران کو نیب قانون سے استثنی دیا گیا ہے۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ فوجی افسران کے حوالے سے ترمیم چیلنج نہیں کی، فوجی افسران کے خلاف آرمی ایکٹ میں کرپشن پر سزائیں موجود ہیں۔

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سزائیں تو سول افسران اور عوامی عہدیداروں کے خلاف بھی موجود ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے حاضر سروس فوجی افسر کو نیب قانون سے استثنیٰ دینے کی شق پانچ کو چیلنج ہی نہیں کیا۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اب سوموٹو نہیں لیتے۔

کون سے کیسز واپس ہوئے؟

عدالت میں نیب پراسیکیوٹر نے نیب ترامیم کی وجہ سے واپس ہونے والے کیسز کی تفصیل بھی جمع کروائی۔

مجموعی طور پر رواں سال کراچی میں 36، لاہور میں 21 ریفرنس واپس ہوئے، نیب پراسیکیوٹر کے مطابق رواں سال 52 مقدمات بینکنگ اور کسٹم عدالتوں کو منتقل ہوئے ہیں۔

نیب ترامیم کیس کیا ہے؟

جون 2022 میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں۔ لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی۔

تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا۔ چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا۔ بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی چار سال کی مدت بھی کم کر کے تین سال کردی گئی ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا۔ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی۔

بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

26 جون کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے نیب آرڈیننس میں موجودہ مخلوط حکومت کی جانب سے کی گئیں ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔