عدلیہ مخالف تقاریر پر پابندی، لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر سپریم کورٹ کا نوٹس

فائل فوٹو

چیف جسٹس آف پاکستان نے منگل کو ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ سے تمام ریکارڈ طلب کرلیا تھا اور رجسٹرار کو ہدایت دی تھی کہ کیس کو آج ہی سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیرِ اعظم نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں کی عدلیہ مخالف تقاریر پر پابندی سے متعلق درخواستوں پر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو نوٹس جاری کردیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے گزشتہ روز حکمران جماعت کے رہنماؤں کے خلاف توہینِ عدالت سے متعلق دائر درخواستوں پر 'پیمرا' سے کہا تھا کہ وہ 15 روز میں خود فیصلہ کرے کہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور نون لیگ کے دیگر رہنماؤں کی عدلیہ مخالف مخالف تقاریر کو نشر کیا جانا چاہیے یا نہیں۔

ہائی کورٹ کے تین رکنی فل بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ 15 روز کی اس مدت کے دوران توہینِ عدالت پر مبنی کوئی مواد ٹی وی وی چینلز پر نشر نہیں ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے منگل کو ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ سے تمام ریکارڈ طلب کرلیا تھا اور رجسٹرار کو ہدایت دی تھی کہ کیس کو آج ہی سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے دن ایک بجے اس معاملے کی سماعت کی جس میں عدالت نے 'پیمرا' کو بھی نوٹس جاری کردیا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز خود آجائیں یا وکیل کو بھیج دیں۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ فریقین کی نمائندگی ہونا ضروری ہے۔ ہم شام 7 بجے تک بیٹھے ہیں۔ انہوں نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ جب بھی نوازشریف اور مریم نواز سے رابطہ ہو بتادیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ لاہور میں نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے کون پیش ہوا تھا؟ اس پر وکیل نے بتایا کہ لاہور میں نواز شریف کے وکیل اے کے ڈوگر اور مریم نواز کی جانب سے اعظم تارڑ پیش ہوئے تھے۔

لاہور ہائی کورٹ میں نواز شریف، مریم نواز اور وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی سمیت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 16 ارکانِ اسمبلی کی عدلیہ مخالف تقاریر نشر کرنے پر پابندی کے لیے 27 متفرق درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

ان درخواستوں میں موقف اپنایا گیا تھا کہ ن لیگ کے قائدین پاناما کیس سمیت دیگر مقدمات میں دیے جانے والے فیصلوں کے ردِ عمل میں عدلیہ مخالف تقاریر کر رہے ہیں اور براہِ راست ججوں کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ ان کی یہ تقاریر براہِ راست نشر کی جارہی ہیں جو توہینِ عدالت ہے۔

درخواستوں گزاروں نے ان تقاریر کی بنیاد پر نواز شریف سمیت ن لیگ کے دیگر رہنماؤں کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کرنے کی استدعا کی تھی جب کہ ساتھ ہی 'پیمرا' کو اپنے کوڈ آف کنڈکٹ پر عمل درآمد یقینی بنانے کا حکم دینے کی درخواست بھی کی گئی تھی۔

درخواستوں کی سماعت کرنے والے لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے اس معاملے پر 'پیمرا' کو فیصلے کا اختیار دیتے ہوئے توہینِ عدالت پر مبنی بیانات نشر کرنے پر 15 روز کی عبوری پابندی عائد کردی تھی۔

اس فیصلے کے بعد سے اب تک نواز شریف اور مریم نواز کی تقاریر ٹی وی چینلز پر براہِ راست نشر نہیں کی جارہی ہیں۔