سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے 35 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کیس میں مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی سندھ میں ہی کام کرے گی جس کی سکیورٹی رینجرز کے حوالے کریں گے اور یہ کمیٹی ہر 15 روز میں رپورٹ دے گی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے منگل کو جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 35 ارب روپے کا فراڈ ہوا ہے۔ ہم ابھی کسی پر الزام نہیں لگا رہے۔ ہم سچ کو سامنے لانا چاہتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ معاملے کی تحقیقات ماہرین سے کرائیں۔ جے آئی ٹی سے از سرِ نو تحقیقات کرا لیتے ہیں۔ عدالت رعایت دے رہی ہے کہ ٹرائل کورٹ کی کارروائی روک دی جائے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اصل سوال عدالت کے اطمینان کے لیے شفاف تحقیقات کا ہے۔ کرپشن سامنے لانے کے لیے از خود نوٹس لیا اور جے آئی ٹی بنا رہے ہیں۔ جے آئی ٹی بنائے بغیر بھی اداروں کی مدد لینے کا کہہ سکتے ہیں۔ عدالت سمجھتی ہے کہ جی آئی ٹی تشکیل دینا ضروری ہے۔
مقدمے کے شریک ملزم انور مجید کے وکیل شاہد حامد نے عدالت کے روبرو مؤقف اختیار کیا کہ ایف آئی اے نے جنوری 2018ء میں تحقیقات شروع کیں۔ اس سلسلے میں مختلف افراد کے بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے۔ انور مجید اور عبدالغنی مجید زیرِ حراست ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عبد الغنی مجید کا ایم آر آئی کیوں نہ اسلام آباد سے کرا لیں۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ بھی کہتے ہیں کہ ملزمان کو جیل میں نہیں رکھنا۔ عدالت کی صوابدید ہے کہ ملزمان کو کہاں رکھنا ہے۔ یہ چھوٹا موٹا اسکینڈل نہیں ہے۔ قوم کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔ قوم کا حق ہے کہ لوٹی ہوئی دولت کی تحقیقات ہوں۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ لوگوں کے اکاؤنٹس میں فرشتے پیسہ جمع کرا گئے۔ ہمیں ان فرشتوں کو تلاش کرنا ہے۔ کسی کی پگڑی کو اچھالا نہیں جائے گا۔ نیب کو بھی پگڑیاں اچھالنے سے منع کر دیا ہے۔ جے آئی ٹی بنانے کی منشا یہی ہے کہ سچ سامنے آنا چاہیے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ جے آئی ٹی میں متعصب آدمی نہیں ہونا چاہیے۔ جس پر چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ کو نجف مرزا پر اعتراض ہے؟ وہ اس میں شامل نہیں ہوگا۔ مرزا گیا اور ساتھ میں صاحبہ بھی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آصف زرداری اور فریال تالپور کو تو جے آئی ٹی پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ الزامات سے بری ہو کر کلین چٹ لے کر دوبارہ ملک کی باگ ڈور سنبھال سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو ہر دفعہ تفتیش کے لیے بلایا جائے۔ اکاؤنٹنگ افسران کو بلا سکتے ہیں۔
انور مجید کے بچوں کے وکیل انور بھٹی نے کہا کہ میرے مؤکلان کی 50 سے زائد کمپنیاں پاکستان میں ہیں۔ ان کے اکاؤنٹس کھولنے کا حکم دیا جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 35 ارب جمع کرا دیں۔ تمام اکاوٴنٹس کھول دیں گے۔
ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے سندھ میں تحقیقات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عام تاثر ہے کہ سندھ میں وڈیرا راج ہے۔ اسلام آباد میں تحقیقات کی اجازت دی جائے جسے عدالت نے مسترد کردیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو کراچی میں ہی تحقیقات کرے گی۔ تحقیقاتی ٹیم کو رینجرز کی سکیورٹی فراہم کی جائے گی اور وہ ہر دو ہفتے بعد پیش رفت رپورٹ پیش کرے گی۔
سپریم کورٹ جعلی اکاؤنٹس سے متعلق کیس کی سماعت کر ہی ہے جس میں جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی ٹرانزیکشنز کی گئی تھیں۔
اس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور ایف آئی اے میں اپنا بیان ریکارڈ کرا چکے ہیں اور اس وقت عبوری ضمانت پر ہیں۔