زیادہ تر امریکی مسلمان صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالیں گے: سروے

فائل

کونسل آن امریکن اسلامک رلیشنز (سی اے آئی آر) کی جانب سے کرائے گئے سروے کے مطابق، 72 فی صد امریکی مسلمان ووٹر ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کو، جب کہ ری پبلیکن پارٹی کے مدِ مقابل امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کو چار فی صد ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں

رائے عامہ کے ایک نئے جائزے کے مطابق، امریکہ میں رجسٹر مسلمان ووٹروں میں سے 86 فی صد کا کہنا ہے کہ وہ آٹھ نومبر کے صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالیں گے، ایسے میں جب خیال کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تعصب کا رویہ بڑھا ہے۔

کونسل آن امریکن اسلامک رلیشنز (سی اے آئی آر) نے جمعرات کے روز ملک بھر میں ہونے والی اس عام جائزہ رپورٹ کے نتائج جاری کیے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ 72 فی صد امریکی مسلمان ووٹر ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کو، جب کہ ری پبلیکن پارٹی کے مدِ مقابل امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کو چار فی صد ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

تین فی صد گرین پارٹی کی امیدوار جِل اسٹائن کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، جب کہ دو فی صد لبرٹیرین پارٹی کے امیدوار گیرے جانسن کو ووٹ دیں گے۔

سروے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ 85 فی صد مسلمانوں کا خیال ہے کہ گذشتہ سال کے دوران امریکہ میں اسلام کے خلاف تعصب اور مسلمانوں کے خلاف جذبات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ادارے کے انتظامی سربراہ، نہاد اود نے کہا ہے کہ اس کا سبب ٹرمپ، ری پبلیکن پارٹی کے سابق امیدوار بین کارسن اور ٹیڈ کروز جیسے سیاست دان؛ اور’’ اُن کے اردگرد رہنے والے سخت گیر ہیں، جنھوں نے ’اسلامو فوبیا‘ کو بڑھنے دیا ہے‘‘۔
رائے عامہ کے جائزے میں شامل تقریباً ایک تہائی، یعنی 30 فی صد، لوگوں کا کہنا ہے کہ اُنھیں اس بات کا احساس ہے کہ گذشتہ سال کے دوران اُن کے خلاف تعصب کا رویہ برتا گیا۔

اود نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور ہوائی اڈے کی طرح کے عوامی مقامات پر امتیاز کے رویے سے متعلق رپورٹوں کی جانب اشارہ کیا، جب کہ مساجد پر شرارت کی گئی، اور مسلمانوں سے نفرت کی بنا پر قتل کی وارداتیں تک ہوئیں۔

واشنگٹن میں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب میں اود نے کہا کہ ’’یہ اعداد مسلمان برادری کے بارے میں ایک کہانی سناتے ہیں، جس میں ایکساتھ امید اور پریشانی کا عنصر موجود ہے؛ وہ یہ کہ قومی سیاسی مکالمہ کمزور پڑ چکا ہے، اس حد تک کہ امریکی شہری کے طور پر وہ اپنے مستقبل کے بارے میں یقین کھو چکے ہیں، چونکہ دھمکیاں مل رہی ہیں کہ اُن کے لیے خصوصی پالیسیاں مرتب کی جائیں گی، جن کا مقصد اُنھیں نشانہ بنانا ہے‘‘۔