عالمی بحران پائیدار ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں: اقوام متحدہ

فائل۔

اقوام متحدہ کی پائیدارترقی کے اہداف کی رپورٹ 2022 میں متنبہ کیا گیا ہے کہ عالمی بحرانوں اور آفات کی وجہ سے 2015 میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی طرف سے طے کردہ 17 اہداف کو اس دہائی کے آخر تک حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

جینوا سے ہماری نامہ نگار لیزا شلائین نے یہ خبر اس ہفتے جاری ہونے والی رپورٹ کے حوالے سے دی ہے۔ اس رپورٹ میں 200 سے زائد ممالک کی صورت حال کا احاطہ کیا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوویڈ 19، موسمیاتی تغیر اور بڑھتے ہوئے تنازعات نےغربت اور بھوک کے خاتمے اورعالمی صحت عامّہ اورسلامتی کو بہتر بنانے کی کوششوں پرتباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔

اقوام متحدہ کے شماریات ڈویژن کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر فرانچسکا پیروچی نے کہا کہ کوویڈ 19 نے غربت کے خاتمے میں چار سال میں جتنی پیش رفت ہونا تھی ، اس کو ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی وبا نے مزید 9 کروڑ 30 لاکھ افراد کو انتہائی غربت اور بہت سے لوگوں کو شدید بھوک کی طرف دھکیل دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تنازعات کے عالمی پھیلاؤ اور ان کی تعداد میں اضافے نےدس کروڑ سے زیادہ لوگوں کو اپنے گھروں سے بے گھر کر دیا ہے۔ 1946 کے بعد یہ گھر چھوڑنے پر مجبور ہونے والوں کی تعداد میں سب سے بڑا اضافہ ہے۔

یوکرین کی جنگ کی تباہ کاری کا ایک منظع (فائل فوتو)

" پیروچی نے کہا کہ یوکرین کے بحران کی وجہ سے خوراک، ایندھن اور کھاد کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں، سپلائی چین اور عالمی تجارت میں مزید خلل پڑا ہے، مالیاتی منڈیوں کو نقصان پہنچا ہے، اورعالمی غذائی تحفظ اورامداد کی ترسیل میں رخنہ پڑا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی نے بنی نوع انسان کو تباہی کے دہانے پرکھڑا کر دیا ہے ،جس کے اثرات دنیا بھر کے اربوں لوگ پہلے ہی دیکھ رہے ہیں اور محسوس کر رہے ہیں‘‘۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ریکارڈ 6 فیصد اضافہ ہوا۔ موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات سے بچنے کے لیے، ان کا کہنا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو 2025 سے پہلے اپنی آخری حدوں کو چھو کر گرنا چاہیے،اسے 2030 تک 43 فیصد کمی اور 2050 تک صفر تک گر جانا چاہیے۔

سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے رضاکارانہ قومی وعدے اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ اس کے بجائے، ان کا کہنا ہے کہ یہ وعدے اگلی دہائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں تقریباً 14 فیصد اضافے کا باعث بنیں گے۔

پیروچی نے کہا کہ ان عالمی بحرانوں کا خمیازہ غریب ترین اور کمزور ترین لوگ زیادہ بھگتیں گے۔

’’خواتین بے روزگاری اور ذریعہ معاش کی رکاوٹوں، اسکولوں کے نظام میں خلل، اور گھر میں بلا معاوضہ دیکھ بھال کے کام کے بڑھتے ہوئے بوجھ سے نبرد آزما ہیں۔ دریں اثنا، موجودہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد وبائی مرض کی طرح بڑھ گیا ہے اور بچوں سے مشقت اور کم عمری کی شادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔"

اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ سماجی تحفظ کے نظام کو مضبوط بنا کر اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات کی بنیادی وجوہات کو دور کر کے ان مسائل کے حل تلاش کیے جا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ صاف توانائی میں سرمایہ کاری گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کے امکانات کو بہتر بنا سکتی ہے اور اس کے لیے اجتماعی اقدامات اور سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔