رخائن کے حالات پر تشویش ہے، سوچی

سوچی کا کہنا تھا کہ انہیں ان اطلاعات پر گہری تشویش ہے کہ تشدد کے باعث بڑی تعداد میں مسلمان رخائن سے سرحد پار ہجرت کر رہے ہیں اور ان کے بقول، "ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔"

میانمار کی حکومت کی سربراہ اور امن کی نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی نے میانمار کی مغربی ریاست رخائن میں ہونے والی "انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں" کی مذمت کرتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔

منگل کو دارالحکومت نیپے تو میں روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے پر پہلا باضابطہ پالیسی بیان دیتے ہوئے سوچی نے کہا کہ ان کی حکومت رخائن میں انسانی حقوق کی تمام خلاف ورزیوں اور غیر قانونی تشدد کی مذمت کرتی ہے اور ریاست میں قانون کی بالادستی بحال کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہیں ان اطلاعات پر گہری تشویش ہے کہ تشدد کے باعث بڑی تعداد میں مسلمان رخائن سے سرحد پار ہجرت کر رہے ہیں اور ان کے بقول، "ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔"

یہ پہلا موقع ہے کہ آنگ سان سوچی نے رخائن میں 25 اگست سے جاری تشدد کی حالیہ لہر پر باضابطہ ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔

سوچی کے اس خطاب کے لیے میانمار میں تعینات عالمی طاقتوں اور مغربی ممالک کے سفیروں اور امدادی تنظیموں کے عہدیداران کو خصوصی دعوت دی گئی تھی جب کہ ان کا یہ خطاب ملک بھر میں ٹی وی پر براہِ راست نشر کیا گیا۔

لیکن کئی بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے آنگ سان سوچی کے اس خطاب کو ناکافی قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ وہ راکھین کے مسئلے سے جان بوجھ کر نظریں چرا رہی ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سوچی اور ان کی حکومت راکھین میں جاری تشدد میں میانمار کی فوج کے کردار پر "اپنا سر ریت میں دبائے ہوئے ہیں۔"

اپنے بیان میں ایمنسٹی نے کہا ہے کہ سوچی کا روہنگیا مسلمانوں کے معاملے پر چپ کا روزہ توڑنا ایک اچھی پیش رفت ہے لیکن وہ اب بھی اس بحران میں میانمار کی فوج کے کردار پر خاموش ہیں۔

اقوامِ متحدہ راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری میانمار کی فوج اور بودھ انتہا پسندوں کی کارروائیوں کو "نسل کشی" قرار دے چکی ہے۔ لیکن سوچی نے اپنے خطاب میں اس الزام کا کوئی جواب نہیں دیا۔

خطاب میں سوچی کا مزید کہنا تھا کہ انہیں رخائن میں جاری تنازع سے متاثرہ افراد کے دکھ اور مشکلات کا احساس ہے اور ان کی حکومت ریاست میں مسلمانوں اور بودھ اکثریتی آبادی کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔

لیکن ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ پانچ ستمبر کے بعد سے رخائن میں کوئی مسلح تصادم اور فوجی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔

امدادی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' نے بھی رخائن سے متعلق سوچی کے بیان کو مسترد کیا ہے۔

تنظیم کے ایک اعلیٰ عہدیدار فل رابرٹسن نے کہا ہے کہ اگر سوچی کا یہ بیان درست ہے کہ پانچ ستمبر کے بعد رخائن میں فوج نے کوئی کارروائی نہیں کی تو گزشتہ دو ہفتوں کے دوران وہاں مسلمانوں کے درجنوں دیہات کو کس نے آگ لگائی ہے؟

انہوں نے کہا سیٹلائٹ سے لی جانے والی تصویروں سے ظاہر ہورہا ہے کہ رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کے نصف سے زائد دیہات نذرِ آتش کیے جاچکے ہیں۔

فل رابرٹسن نے کہا کہ سوچی، ان کی حکومت اور فوج کو اب یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ میانمار کی سکیورٹی فورسز کسی ضابطے اور قاعدے کی پابندی نہیں کر رہیں اور کھلے عام قتل و غارت کرر ہی ہیں۔

آنگ سان سوچی میانمار کی وزیرِ خارجہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی پہلی فرسٹ اسٹیٹ کونسلر بھی ہیں۔ یہ عہدہ ملک کی حکمران جماعت نے بطورِ خاص انہی کے لیے تخلیق کیا ہے جس کے اختیارات وزیرِ اعظم کے برابر ہیں۔

سوچی کو میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف طویل جدوجہد کرنے اور کئی دہائیوں تک قید اور نظر بندی کاٹنے کے باعث عالمی برادری میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

میانمار میں جمہوریت کی بحالی کے لیے طویل اور پرامن جدوجہد کرنے پر ہی انہیں امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔

لیکن گزشتہ سال برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے آنگ سان سوچی نے میانمار کے اقلیتی روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف مسلسل چپ سادھے رکھی ہے جس پر انہیں انسانی حقوق کی تنظیمیں تنقید کا نشانہ بناتی آئی ہیں۔

رخائن میں گزشتہ ماہ بھڑکنے والے فسادات اور وہاں میانمار کی فوج اور بودھ انتہا پسندوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں چار لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کی پڑوسی ملک بنگلہ دیش ہجرت پر دنیا بھر سے اظہارِ تشویش کے باوجود سوچی نے اس خطاب سے قبل تک اس کی مذمت نہیں کی تھی جس پر انہیں عالمی برادری کی کڑی تنقید اور دباؤ کا سامنا تھا۔

گزشتہ ہفتے سوچی نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے اپنا طے شدہ دورہ امریکہ بھی منسوخ کردیا تھا جس کی وجہ تجزیہ کاروں کے بقول رخائن کی صورتِ حال پر عالمی رہنماؤں کی براہِ راست تنقید اور سوالات سے بچنا تھا۔