صوابی کی خواتین یونیورسٹی میں اسمارٹ فون لانے پر پابندی، طالبات کا احتجاج

صوبہ خیبرپختونخوا کی خواتین یونیورسٹی کی انتظامیہ نے یونیورسٹی میں اسمارٹ فون کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے جس پر طالبات سراپا احتجاج ہیں۔

ویمن یونیورسٹی صوابی کی انتظامیہ کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 20 اپریل سے یونیورسٹی میں اسمارٹ فون کے استعمال پر پابندی ہو گی جب کہ خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

یونیورسٹی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ سوشل میڈیا ایپس کے استعمال سے طالبات کی پڑھائی، اخلاقیات اور کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ اسمارٹ فونز کے استعمال پر طالبات کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور پانچ ہزار روپے تک جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

اعلامیے کے مطابق طالبات کو یونیورسٹی میں اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس لانے کی اجازت نہیں ہو گی۔

ویمن یونیورسٹی صوابی کی جانب سے جاری کیا گیا اعلامیہ


ماضی میں ہونے والے اس نوعیت کے بعض فیصلے

اس سے قبل خیبر پختونخوا کے شہروں پشاور ، مانسہرہ اور چارسدہ کی یونیورسٹیز میں طالبات کے ڈریس کوڈ کے علاوہ خواتین اور مرد طلبہ کے لیے الگ کلاس رومز جیسے فیصلے سامنے آتے رہے ہیں۔

صوابی ویمن یونیورسٹی کے اس فیصلے کی پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ کی تنظیم نے بھی مذمت کی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

افغانستان میں طالبان کی حکمرانی کے چھ ماہ بعد خواتین کی صورتِ حال

تنظیم کے صدر پروفیسر ڈاکٹر جمیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جامعات تنوع کی علامت ہوتی ہیں جہاں طلبہ عصر حاضر کے جدید تقاضوں سے استفادہ کر کے تحقیق کے عمل کو آگے بڑھاتے ہیں۔ لہذٰا ایسی پابندیوں سے اُن کی نصابی سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔

اُن کے بقول اس نوعیت کی پابندیوں سے گھٹن کا ماحول پروان چڑھے گا ۔

طالبات کا ردِ عمل

صوابی خواتین یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زیادہ تر طالبات انتظامیہ کے اس فیصلے پر تعجب اور پریشانی کا اظہار کر رہی ہیں۔

اُن کے بقول اسمارٹ فون آج کل تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھانے کا معاون ذریعہ ہیں ۔ کرونا کے دو ر میں اسمارٹ فون اور ٹیبلٹس کی افادیت سب کے سامنے ہے کیوں کہ طلبہ انہی کے ذریعے اپنی تعلیمی سرگرمیاں آگے بڑھا رہے تھے۔