اقوام متحدہ نے کہاہے کہ شام حالیہ تشدد سے متاثر ہونے والے افراد تک بلا روک ٹوک امداد پہنچانے کی اجازت دینے سے انکار کررہاہے۔
امدادی سرگرمیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کی سربراہ ویلری آموس نے جمعے کے روز کہا کہ شامی حکام نے حکومت کی جانب سے حراست میں لیے جانے والے منحرفین تک اقوام متحدہ کو رسائی کی اجازت دینے پر غور کے لیے بھی مزید وقت مانگا ہے۔
ترکی کے شہر انقرہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے آموس نے بتایا کہ شامی حکومتی عہدیدار تشدد سے بری طرح متاثر ہونے والے علاقوں کے بارے میں معلومات اکھٹی کرنے پر راضی ہوگئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی عہدیدار ترکی اور شام کی سرحد کے قریب واقع پناہ گزینوں کے کیمپ کے دورے کے بعد صحافیوں سے بات چیت کررہی تھیں جہاں شام سے اپنی جانیں بچا کر فرار ہونے والے کم ازکم 11 ہزارپناہ گزین مقیم ہیں۔
آموس نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ حمص کے علاقے بابِ امر کی صورتِ حال دیکھ کر دہل کے رہ گئی ہیں جو ایک ماہ تک شامی افواج کے محاصرے اور بمباری کا نشانہ بنا رہا ہے۔
ان کے بقول، "وہاں کوئی نہیں بچا ہے۔جن لوگوں کو میں نے دیکھا وہ اپنا باقی ماندہ سامان اکٹھا کرنے میں جتے ہوئے تھے۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ آخر ان لوگوں پہ کیا بیتی"۔
اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان بھی شام کے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے ہفتے کو دمشق کادورہ کرنے والے ہیں۔
مسٹر عنان، جنہیں شام کے لیے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کی جانب سے سفارتی نمائندہ مقرر کیا گیا ہے، نے خبردار کیا ہے کہ شام میں غیر ملکی مداخلت سے صورت حال مزید بگڑ سکتی ہے۔
ادھر چین نے بھی کوفی عنان کے دورہ شام کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ "غیر جانب دار ثالثی" کے ذریعے امن مذاکرات کی راہ نکالی جاسکتی ہے۔
یاد رہے کہ چین روس کے ہمراہ دو بار سلامتی کونسل میں آنے والی ان قراردادوں کو ویٹو کرچکا ہے جن کا مقصد شام میں جاری پرتشدد واقعات کی روک تھام کے لیے صدر بشار الاسد پر دبائو بڑھانا تھا۔
دریں اثنا شام کی حزب اختلاف کی تنظیموں نے ملک میں پیش آنے والے تشدد کے تازہ ترین واقعات میں مزید 19 افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔
حزبِ اختلاف کے مطابق یہ افراد جمعے کو ملک بھر میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہروں پر سیکیورٹی افواج کے حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔