ماہرین کہتے ہیں کہ شام کے کیمیکل ہتھیاروں کے بارے میں بہت کم ٹھوس اعداد و شمار دستیاب ہیں کیوں کہ شام نے کیمیکل ’ویپنز کنونشن‘ پر دستخط نہیں کیے ہیں ۔
واشنگٹن —
مغربی ملکوں کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ شام کے پاس کیمیائی ہتھیاروں کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔ اس میں مسٹرڈ گیس، زیادہ جدید سارین بلکہ زہریلے کیمیائی مادوں میں سب سے زیادہ مہلک چیز، وی ایکس بھی شامل ہے ۔
انٹرنیٹ پر ریسرچ کرنے والی فرم ’گلوبل سکیورٹی ڈاٹ کام‘ کے سربراہ جان پائیک کہتے ہیں کہ شام کے حکومت کے پاس ان کیمیائی ہتھیاروں کو ہدف پر پہنچانے کے ذرائع بھی موجود ہیں۔
’’ان کے پاس بلسٹک میزائل، توپوں کے راکٹ، توپوں کے گولے اور مختلف قسم کے بم موجود ہیں جنہیں ہوائی جہازوں سے گرایا جا سکتا ہے ۔ لہٰذا، انہیں ٹارگٹ پر جس طرح بھی پہنچانا ہو، کم از کم اس علاقے میں، وہ ان ہتھیاروں کو وہاں لے جا سکتے ہیں۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ شام کے کیمیکل ہتھیاروں کے بارے میں بہت کم ٹھوس اعداد و شمار دستیاب ہیں کیوں کہ شام نے کیمیکل ویپنز کنونشن پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ اس کنونشن کے تحت ایسے ہتھیار تیار کرنا، انہیں اپنے پاس رکھنا اور انہیں استعمال کر نا ممنوع ہے۔
بیشتر اندازے انٹیلی جنس ایجنسیوں اور تجزیہ کاروں کی اطلاعات پر مبنی ہیں۔
پائیک کہتے ہیں کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کہاں محفوظ کیے گئے ہیں۔ ’’ ان کے پاس کئی جگہ یہ ہتھیار اسٹاک کرنے کے انتظامات ہیں لیکن وہ انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے رہتے ہیں ۔ شاید وہ انہیں ایسے مقامات پر لے جا رہے ہیں جو ان کے خیال میں زیادہ محفوظ ہیں یا جہاں سے انہیں ضرورت پڑنے پر پھرتی سے استعمال کیا جا سکے گا۔‘‘
گزشتہ سال صدر براک اوباما نے شامی حکومت کو خبر دار کیا تھا کہ وہ اپنے مخالفین کے خلاف جنگ میں کیمیائی ہتھیار استعمال نہ کرے۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ یہ سرخ لائن کراس نہ کرے ۔
انھوں نے کہا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے اس پورے معاملے کی نوعیت بدل جائے گی۔ لیکن انھوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر کیا کارروائی کی جائے گی۔
وائٹ ہاؤس نے اب یہ انکشاف کیا ہے کہ امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں یہ کہہ رہی ہیں کہ شام نے محدود پیمانے پر، شام میں کیمیکل مادے، خاص طور سے کیمیائی ایجنٹ سارین استعمال کیا ہے ۔ یہ اطلاع کس حد تک صحیح ہے، اس بارے میں انٹیلی جنس ایجنسیوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ تا ہم امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ ایسے قابلِ اعتبار حقائق جمع کرنے کی کوشش کرے گی اور شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں جو بھی ثبوت ملیں گے ان کی پوری طرح چھان بین کرے گی۔
فیڈریشن آف امریکن سائنٹسس میں کیمیائی ہتھیاروں کے ماہر چارلس بلیئر کہتے ہیں کہ ابھی اعتماد کے ساتھ یہ کہنا بہت قبل از وقت ہو گا کہ شامی حکومت نے اپنے لوگوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں۔
’’شام کی فوج کے اندر ایسے عناصر موجود ہیں جن کا باغی فورسز کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے، اور وہ انہیں سارین ایجنٹ کی تھوڑی سی مقدار دے دیتے ہیں۔ اور پھر یہ گوریلا فورسز، یعنی حکومت کی مخالف فورسز جن میں بہت سے جہادی عناصر شامل ہیں، پوری کوشش کرتے ہیں کہ یہ تاثر دیا جائے جیسے شامی حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں۔ ایسا کرنا ان کے مفاد میں ہے کیوں کہ امریکی حکومت نے اسے سرخ لائن قرار دے دیا ہے ۔‘‘
گلوبل سکیورٹیکے جان پائیک کہتے ہیں ’’ یہ امکان بہر حال موجود ہے کہ اس کیمیائی ایجنٹ کے استعمال کا اختیار اعلیٰ ترین سطح پر نہیں دیا گیا تھا۔ یہ بڑی عجیب سی بات ہو گی کہ شام وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والا کوئی ہتھیار استعمال کرے گا اور اسے وسیع پیمانے پر تباہی نہیں ہو گی۔ میرا خیال ہے کہ وائٹ ہاؤس جس سرخ لکیر کی بات کرتا رہا ہے، اس سے مراد زہریلی گیس کا اس سے کہیں زیادہ وسیع اور تباہ کن استعمال ہے جتنا اب تک دیکھنے میں آیا ہے۔‘‘
اقوامِ متحدہ آج کل اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے کہ کیا شامی حکومت نے واقعی کیمیکل ہتھیار استعمال کیے ہیں ۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ تفتیش آگے نہیں بڑھ سکی ہے کیوں کہ اقوامِ متحدہ کے انسپیکٹرز شام میں اپنی تفتیش کا کام نہیں کر سکے ہیں ۔
انٹرنیٹ پر ریسرچ کرنے والی فرم ’گلوبل سکیورٹی ڈاٹ کام‘ کے سربراہ جان پائیک کہتے ہیں کہ شام کے حکومت کے پاس ان کیمیائی ہتھیاروں کو ہدف پر پہنچانے کے ذرائع بھی موجود ہیں۔
’’ان کے پاس بلسٹک میزائل، توپوں کے راکٹ، توپوں کے گولے اور مختلف قسم کے بم موجود ہیں جنہیں ہوائی جہازوں سے گرایا جا سکتا ہے ۔ لہٰذا، انہیں ٹارگٹ پر جس طرح بھی پہنچانا ہو، کم از کم اس علاقے میں، وہ ان ہتھیاروں کو وہاں لے جا سکتے ہیں۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ شام کے کیمیکل ہتھیاروں کے بارے میں بہت کم ٹھوس اعداد و شمار دستیاب ہیں کیوں کہ شام نے کیمیکل ویپنز کنونشن پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ اس کنونشن کے تحت ایسے ہتھیار تیار کرنا، انہیں اپنے پاس رکھنا اور انہیں استعمال کر نا ممنوع ہے۔
بیشتر اندازے انٹیلی جنس ایجنسیوں اور تجزیہ کاروں کی اطلاعات پر مبنی ہیں۔
پائیک کہتے ہیں کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کہاں محفوظ کیے گئے ہیں۔ ’’ ان کے پاس کئی جگہ یہ ہتھیار اسٹاک کرنے کے انتظامات ہیں لیکن وہ انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے رہتے ہیں ۔ شاید وہ انہیں ایسے مقامات پر لے جا رہے ہیں جو ان کے خیال میں زیادہ محفوظ ہیں یا جہاں سے انہیں ضرورت پڑنے پر پھرتی سے استعمال کیا جا سکے گا۔‘‘
گزشتہ سال صدر براک اوباما نے شامی حکومت کو خبر دار کیا تھا کہ وہ اپنے مخالفین کے خلاف جنگ میں کیمیائی ہتھیار استعمال نہ کرے۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ یہ سرخ لائن کراس نہ کرے ۔
انھوں نے کہا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے اس پورے معاملے کی نوعیت بدل جائے گی۔ لیکن انھوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر کیا کارروائی کی جائے گی۔
وائٹ ہاؤس نے اب یہ انکشاف کیا ہے کہ امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں یہ کہہ رہی ہیں کہ شام نے محدود پیمانے پر، شام میں کیمیکل مادے، خاص طور سے کیمیائی ایجنٹ سارین استعمال کیا ہے ۔ یہ اطلاع کس حد تک صحیح ہے، اس بارے میں انٹیلی جنس ایجنسیوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ تا ہم امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ ایسے قابلِ اعتبار حقائق جمع کرنے کی کوشش کرے گی اور شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں جو بھی ثبوت ملیں گے ان کی پوری طرح چھان بین کرے گی۔
فیڈریشن آف امریکن سائنٹسس میں کیمیائی ہتھیاروں کے ماہر چارلس بلیئر کہتے ہیں کہ ابھی اعتماد کے ساتھ یہ کہنا بہت قبل از وقت ہو گا کہ شامی حکومت نے اپنے لوگوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں۔
’’شام کی فوج کے اندر ایسے عناصر موجود ہیں جن کا باغی فورسز کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے، اور وہ انہیں سارین ایجنٹ کی تھوڑی سی مقدار دے دیتے ہیں۔ اور پھر یہ گوریلا فورسز، یعنی حکومت کی مخالف فورسز جن میں بہت سے جہادی عناصر شامل ہیں، پوری کوشش کرتے ہیں کہ یہ تاثر دیا جائے جیسے شامی حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں۔ ایسا کرنا ان کے مفاد میں ہے کیوں کہ امریکی حکومت نے اسے سرخ لائن قرار دے دیا ہے ۔‘‘
گلوبل سکیورٹیکے جان پائیک کہتے ہیں ’’ یہ امکان بہر حال موجود ہے کہ اس کیمیائی ایجنٹ کے استعمال کا اختیار اعلیٰ ترین سطح پر نہیں دیا گیا تھا۔ یہ بڑی عجیب سی بات ہو گی کہ شام وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والا کوئی ہتھیار استعمال کرے گا اور اسے وسیع پیمانے پر تباہی نہیں ہو گی۔ میرا خیال ہے کہ وائٹ ہاؤس جس سرخ لکیر کی بات کرتا رہا ہے، اس سے مراد زہریلی گیس کا اس سے کہیں زیادہ وسیع اور تباہ کن استعمال ہے جتنا اب تک دیکھنے میں آیا ہے۔‘‘
اقوامِ متحدہ آج کل اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے کہ کیا شامی حکومت نے واقعی کیمیکل ہتھیار استعمال کیے ہیں ۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ تفتیش آگے نہیں بڑھ سکی ہے کیوں کہ اقوامِ متحدہ کے انسپیکٹرز شام میں اپنی تفتیش کا کام نہیں کر سکے ہیں ۔