امریکی دفاعی حکام شام میں جاری قتل وغارت گری روکنےاورصدربشارالاسد کی اقتدار سے جلد رخصتی کے لیے امریکی فوجی مداخلت کے حق میں کیپٹل ہل سےاٹھنے والی آوازوں کو قائل کرنے میں مصروف ہیں۔
گزشتہ روزسامنے آنے والے صدربراک اوباما کے شام سے متعلق بیان کا اعادہ کرتے ہوئےامریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے بھی شامی حکومتی افواج کے خلاف امریکی فوجی حملوں میں جلد بازی کی مخالفت کی ہے۔
بدھ کوامریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کےروبرو ہونے والی سماعت کے دوران امریکی وزیرِ دفاع نےاراکین کو بتایا کہ شامی عوام کو دبانے کی الاسد حکومت کی پرتشدد کاروائی جلد اورضرورانجام کو پہنچے گی لیکن ان کے بقول، "بدقسمتی سے اس تکلیف دہ صورتِ حال کا کوئی سادہ جواب نہیں ہے"۔
سماعت کے دوران میں پنیٹا اورری پبلکن سینیٹرجان مک کین کے درمیان طویل اور گرما گرم مباحثہ بھی ہوا جس میں سینیٹرمک کین کا اصرار تھا کہ امریکہ شامی افواج پر فوری فضائی حملے کرے۔
بحث کے دوران میں سینیٹر مک کین نے وزیرِ دفاع کی توجہ دنیا کے عوام کو ظلم و ستم سے بچانے کے بارے میں اوباما انتظامیہ کی اعلان کردہ پالیسی کی جانب دلاتے ہوئے ان سے شام میں جاری قتل وغارت روکنے کے لیے کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔
جواباً امریکی وزیرِ دفاع نے کہا کہ صدر اوباما شام کے خلاف یک طرفہ امریکی فوجی کاروائی کو خارج از امکان قراردے چکے ہیں اورکسی بھی نوعیت کی عالمی فوجی کاروائی کو آگے بڑھانے سے قبل برسرِ زمین ضروری کام نبٹانے ہوں گے۔
پنیٹا کے بقول شام کے خلاف کاروائی کے لیے امریکہ کو ہمہ جہتی اتحاد تشکیل دینا ہوگا جو ایک آسان کام نہیں اوراس کے لیے وقت درکار ہوگا۔
دورانِ سماعت سینیٹر جولبرمین نے موقف اختیار کیا کہ شام کے حوالے سے کاروائی کے لیے وقت نکلتا جارہا ہے۔
کمیٹی کے روبرو امریکی افواج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی نے بھی بیانِ حلفی ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ امریکہ شامی فضائی حدود میں 'نو فلائی زون' کے قیام اور امدادی سامان کی تقسیم میں معاونت کرسکتا ہے۔
انہوں نے سینیٹرز کو بتایا کہ لیبیا کے بر خلاف شام کے پاس پانچ گنا بڑی فضائی دفاعی قوت ہے جب کہ اس کے پاس کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کا بھی بڑا ذخیرہ موجود ہے۔