شام کی خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے مجوزہ سیاسی عبوری دور پر جمعے کے روز نیویارک میں 20 ممالک کے اعلیٰ اہل کاروں نے مذاکرات کیے، جس سے کچھ ہی ہفتے قبل اقوام متحدہ کے توسط سے پیش ہونے والے منصوبے کا آغاز ہوا، جس میں حکومتِ شام اور حزب مخالف کے درمیان بات چیت ہوئی تھی۔
عہدے دار تیسری بار اجلاس کر رہے ہیں، تاکہ شام میں جنگ بندی کے پچھلے معاہدے پر عمل درآمد ہو سکے، اور سیاسی عبوری دور کے بارے میں نیو یارک کی بات چیت آگے بڑھ سکے۔
اِن سفارت کاروں کا تعلق امریکہ، روس، ایران اور دیگر ملکوں سے ہے۔ شام کے بحران پر مذاکرات کے پچھلے دور میں وہ شریک ہو چکے ہیں، اور اُنھوں نے ہی جمعے کے روز نیویارک میں ملاقات کی۔
شامی صدر بشار الأسد کے حامیوں کے علاوہ، جن میں روس اور ایران پیش پیش ہیں؛ مغربی ملکوں سے تعلق رکھنے والے اہل کار بھی شرکت کر رہے ہیں، جو اس بات کے سخت مخالف ہیں کہ اسد کا حالات پر کنٹرول برقرار رہے۔
امریکی محکمہٴ خارجہ کے ترجمان، جان کِربی کے بقول، ’ہدف یہ ہے کہ عبوری دور کی تشریح کی جائے کہ ہم بہتر عبوری دور کس کو سمجھتے ہیں۔ اور یہ عمل ایسا لگنا چاہیئے، تاکہ جنگ بندی پر عمل درآمد کے کام کو سچائی سے پورا کیا جاسکے‘۔
خودساختہ ’انٹرنیشنل سیریا سپورٹ گروپ (آئی ایس ایس جی)‘ نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد پیش ہوگی، جس کی منظوری دی جائے گی۔ قرارداد کے ذریعے سیاسی عبوری دور اور مجوزہ جنگ بندی کے منصوبے کی توثیق کی جائے گی۔
حکام گروپوں کی فہرست کو بھی حتمی شکل دے رہے ہیں جنھیں دہشت گرد تنظیمیں خیال کیا جاتا ہے، اور جنھیں آئندہ کے مذاکرات سے باہر رکھا گیا ہے۔
اردن کے وزیر خارجہ نصر جودے نے کہا ہے کہ اُن کا ملک اس فہرست کو آخری شکل دینے کے لیے رابطے کا کام انجام دے رہا ہے۔
اُنھوں نے اس جانب توجہ دلائی کہ اِن گروہوں کے بارے میں ہر ملک کی طرف سے فراہم کردہ دستاویزات کو شامل کیا گیا ہے، جنھیں وہ دہشت گرد تنظیمیں خیال کرتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ کچھ ملکوں نے 10، 15، 20 تک نام دیے ہیں، جب کہ دیگر نے زیادہ نام پیش کیے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری جمعے کی شام گئے اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں ہونے والے ایک اور اجلاس کی صدارت کریں گے۔ 15 ارکان پر مشتمل کونسل کی اس ماہ کی صدارت امریکہ کے پاس ہے۔