شام کے مختلف شہروں میں باغیوں اور صدر بشار الاسد کی حامی افواج کے مابین جھڑپوں کی اطلاعات ہیں جب کہ سرکاری افواج نے حما، درعا اور حمص صوبوں میں کئی ایک مقامات پر بمباری بھی کی ہے۔
واشنگٹن —
شامی افواج کے جنگی طیاروں کی جانب سے ترکی کی سرحد کے نزدیک واقع ایک قصبے پر کی جانے والی بمباری کے نتیجے میں 21 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔
برطانیہ میں قائم شامی حزبِ اختلاف کی حامی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے مطابق ثلقین نامی قصبے پر پیر کو کی جانے والی بمباری سے ہلاک ہونے والوں میں کم از کم آٹھ بچے بھی شامل ہیں۔
قصبے میں موجود حزبِ اختلاف کے کارکنان نے انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں ہلاک شدگان کی لاشیں ایک ٹرک میں پڑی ہوئی دیکھی جاسکتی ہیں۔
شامی حزبِ اختلاف کی حامی ایک اور تنظیم 'لوکل کوآرڈی نیشن کمیٹیز' نے ثلقین پر کیے جانے والے حملے میں 30 افراد کے ہلاک ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ شامی حکومت کی جانب سے غیر ملکی صحافیوں کی نقل و حرکت پر عائد کردہ پابندیوں کے باعث ہلاکتوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں۔
دریں اثنا شام کے مختلف شہروں میں باغیوں اور صدر بشار الاسد کی حامی افواج کے مابین جھڑپوں کی اطلاعات ہیں جب کہ سرکاری افواج نے حما، درعا اور حمص صوبوں میں کئی ایک مقامات پر بمباری بھی کی ہے۔
ملک کے سب سے بڑے اور تاریخی شہر حلب میں باغیوں اور سرکاری افواج کے مابین کئی مقامات پر شدید جھڑپیں ہورہی ہیں۔ لڑائی کے باعث ہفتے کو بھڑک اٹھنے والی آگ نے شہر کے تاریخی بازار 'سوق المدینہ' کے وسیع حصے کا خاکستر کردیا تھا جب کہ پیر کو بھی شہر کے کئی قدیم علاقوں میں لڑائی کے باعث آگ بھڑکتی رہی۔
شہر میں موجود سیاحوں اور مقامی تاجروں کا کہنا ہے کہ آگ باغیوں اور سرکاری فوجیوں کے مابین بازار میں ہونے والی شدید لڑائی کے نتیجے میں لگی۔
واضح رہے کہ حلب شام کا قدیم تجارتی مرکز رہا ہے اور قرونِ وسطیٰ میں یہ شہر شاہراہِ ریشم کے راستے ایشیا سے یورپ جانے والے تاجروں کا یورپ میں داخلے سے قبل آخری مستقر ہوا کر تا تھا۔
دریں اثنا شام کے لیے اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی ایلچی لخدار براہیمی کے دمشق میں موجود نمائندے مختار لمانی نے شام میں برسرِ پیکار باغی گروپوں کی تعداد اور ان کے باہمی اختلافات کو ملک میں قیامِ امن کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔
دمشق میں صحافیوں سے گفتگو میں مختیار لمانی کا کہنا تھا شامی معاشرہ بھی بڑے پیمانے پر تقسیم کا شکار ہے جس کے باعث مختلف گروہوں کے درمیان بداعتمادی کی وسیع خلیج حائل ہے۔
ان کے بقول اس صورتِ حال سے بعض ایسے عناصر فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کا شام سے کوئی لینا دینا نہیں۔
برطانیہ میں قائم شامی حزبِ اختلاف کی حامی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے مطابق ثلقین نامی قصبے پر پیر کو کی جانے والی بمباری سے ہلاک ہونے والوں میں کم از کم آٹھ بچے بھی شامل ہیں۔
قصبے میں موجود حزبِ اختلاف کے کارکنان نے انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں ہلاک شدگان کی لاشیں ایک ٹرک میں پڑی ہوئی دیکھی جاسکتی ہیں۔
شامی حزبِ اختلاف کی حامی ایک اور تنظیم 'لوکل کوآرڈی نیشن کمیٹیز' نے ثلقین پر کیے جانے والے حملے میں 30 افراد کے ہلاک ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ شامی حکومت کی جانب سے غیر ملکی صحافیوں کی نقل و حرکت پر عائد کردہ پابندیوں کے باعث ہلاکتوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں۔
دریں اثنا شام کے مختلف شہروں میں باغیوں اور صدر بشار الاسد کی حامی افواج کے مابین جھڑپوں کی اطلاعات ہیں جب کہ سرکاری افواج نے حما، درعا اور حمص صوبوں میں کئی ایک مقامات پر بمباری بھی کی ہے۔
ملک کے سب سے بڑے اور تاریخی شہر حلب میں باغیوں اور سرکاری افواج کے مابین کئی مقامات پر شدید جھڑپیں ہورہی ہیں۔ لڑائی کے باعث ہفتے کو بھڑک اٹھنے والی آگ نے شہر کے تاریخی بازار 'سوق المدینہ' کے وسیع حصے کا خاکستر کردیا تھا جب کہ پیر کو بھی شہر کے کئی قدیم علاقوں میں لڑائی کے باعث آگ بھڑکتی رہی۔
شہر میں موجود سیاحوں اور مقامی تاجروں کا کہنا ہے کہ آگ باغیوں اور سرکاری فوجیوں کے مابین بازار میں ہونے والی شدید لڑائی کے نتیجے میں لگی۔
واضح رہے کہ حلب شام کا قدیم تجارتی مرکز رہا ہے اور قرونِ وسطیٰ میں یہ شہر شاہراہِ ریشم کے راستے ایشیا سے یورپ جانے والے تاجروں کا یورپ میں داخلے سے قبل آخری مستقر ہوا کر تا تھا۔
دریں اثنا شام کے لیے اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی ایلچی لخدار براہیمی کے دمشق میں موجود نمائندے مختار لمانی نے شام میں برسرِ پیکار باغی گروپوں کی تعداد اور ان کے باہمی اختلافات کو ملک میں قیامِ امن کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔
دمشق میں صحافیوں سے گفتگو میں مختیار لمانی کا کہنا تھا شامی معاشرہ بھی بڑے پیمانے پر تقسیم کا شکار ہے جس کے باعث مختلف گروہوں کے درمیان بداعتمادی کی وسیع خلیج حائل ہے۔
ان کے بقول اس صورتِ حال سے بعض ایسے عناصر فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کا شام سے کوئی لینا دینا نہیں۔