ترکی اور شام کی سرحد کے نزدیک، تمباکو کی ایک فیکٹری کے کھنڈرات میں خیموں کا ایک شہر آباد ہے جس میں شامی پناہ گزیں کیوان اور ان کے چار سالہ بیٹے رہ رہے ہیں۔ یہ ییلادگی کیمپ ہے جو تشدد سے فرار ہو کر پناہ لینے والے شامیوں سے بھرا ہوا ہے ۔ لیکن کیوان جو شامی کرد ہیں، عربوں کی اس آبادی میں خود کو اجنبی محسوس کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’وہاں تو میں اپنے لوگوں کے درمیان رہتا تھا، لیکن یہاں مجھے عربوں کے ساتھ رہنا پڑ رہا ہے ۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن میں بتدریج اس کا عادی بن رہا ہوں۔‘‘
کیوان کی بے چینی سے شام کی سب سے بڑی نسلی اقلیت، یعنی کروں کی جدو جہد کی عکاسی ہوتی ہے ۔ شام کی حکومت نے حزبِ اختلاف کو جس بے دردی سے کچلا ہے، اس نے شام کے تقریباً بیس لاکھ کردوں کو خوفزدہ کر دیا ہے ۔ گذشتہ نصف صدی کے دوران، شام کے کردوں کی زندگی، ان کے کلچر، زبان اور قومی شناخت پر ظلم و ستم سے عبارت رہی ہے۔ وہ مشرقِ وسطیٰ کے قدیمی باشندے ہیں لیکن غیر عرب ہیں۔
1962 میں، شام کی حکومت نے ایک لاکھ سے زیادہ کردوں کو شہریت سے محروم کر دیا اور دعویٰ کیا کہ یہ لوگ غیر قانونی طور پر شام میں داخل ہوئے تھے ۔ اب ان شہریت سے محروم لوگوں کی تعداد بڑھ کر تقریباً تین لاکھ ہو گئی ہے ۔
اس نسلی اقلیت کو اپنی طرف ملانے کے لیے، بشا ر الاسد کی حکومت نے عوامی تحریک کی ابتدا ہی میں،شہریت سے محروم تقریباً دو لاکھ شامی کردوں کو شہریت کے حقوق دے دیے تھے ۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔
کرد اپنے ناخوشگوار ماضی کو بھولے نہیں ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ وہ متفق ہیں کہ اب مسٹر اسد کو رخصت ہو جانا چاہیئے ۔
شام کی کردش ڈیموکریٹک پارٹی کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر عبد الحکیم بشار کی نظر میں شام کی حکومت غیر قانونی ہے اور ان کی نظریں اس دور پر ہیں جب اسد جا چکے ہوں گے ۔ لیکن اس دور کے اپنے چیلنج ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں’’عرب قوم پرستوں کو یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ شام صرف ان کی ملکیت نہیں۔ انہیں اپنے ایجنڈوں کے لیے انقلاب کو ہائی جیک نہیں کرنا چاہیئے ۔‘‘
کردش پارٹیوں کے ایک متحدہ بلاک، کردش نیشنل کونسل، کا مطالبہ ہے کہ آئین میں ان کی حیثیت تسلیم کی جائے، انہیں مصائب کا ہرجانہ ادا کیا جائے، اور جمہوری عمل میں شریک کیا جائے ۔وہ سیکولر ازم کو فروغ دینا چاہتے ہیں، ایسی حکومت چاہتےہیں جس میں تمام اختیارات مرکزی حکومت کے پاس نہ ہوں، اور ملک کے سرکاری نام سے لفظ عرب نکالنا چاہتےہیں ۔
کردوں کے اس موقف کی وجہ سے، وہ حکومت کے مخالف بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ گروپ، سیریئن نیشنل کونسل سے الگ ہو کر رہ گئے ہیں۔
لندن میں قائم ہینری جیکسن سوسائٹی کے مائیکل وی اس کہتے ہیں کہ کرد ایک فیصلہ کن اقلیتی گروپ ہیں۔’’ان کی بھر پور شرکت کے بغیر، انقلاب کی کامیابی کا تصور محال ہے ۔‘‘
لیکن لندن اسکول آف اکنامکس کے رابرٹ لوؤ کے خیال میں شام کی حزبِ ِ اختلاف کردوں کے بغیر بھی کامیاب ہو سکتی ہے ۔ وہ کہتےہیں’’میرے خیال میں وہ ابھی انتظار کر رہے ہیں اور یہ دیکھ رہے ہیں کہ کس کا پلڑا بھاری رہتا ہے ۔ اگر حالات بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے حق میں سازگار ہوئے، تو کرد بڑی تیزی سے اس تحریک کا حصہ بن جائیں گے ۔ لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہے کہ ان کی شرکت نا گزیر ہو۔‘‘
ادھر ترکی کے پناہ گزیں کیمپ میں کیوان کو سیاست کی فکر نہیں ہے ۔ وہ اپنے بیٹے کو لے کر شام واپس جانا چاہتے ہیں، ایسے شام میں جو اسد سے آزاد ہو چکا ہو، اور جہاں وہ آزادی سے کرد کی حیثیت سے زندگی گذار سکیں۔