روس ، ترکی اور ایران ، قازقستان کے شہر آستانہ میں دو روزہ مذاکرات کے بعد ، جس میں شام کے سرکاری عہدے دارے اور باغی بھی شریک ہوئے، شام میں فائر بندی کی نگرانی سے متعلق ایک طریقہ کار پر متفق ہو گئے ہیں۔
تینوں ملکوں نے اپنے مشترکہ بیان میں ایک بار پھر یہ کہا ہے کہ شام کی جنگ کا، جسے اب تقریباً چھ سال ہونے والے ہیں، کوئی فوجی حل نہیں ہے اور اقوام متحدہ کے طے کر دہ راہنما اصولوں کے تحت مذاکرات ہی امن حاصل کرنے کا واحد راستہ ہے۔
اپنے بیان میں تینوں ملکوں نے اسلامک اسٹیٹ اور النصرہ فرنٹ کی مخالفت کا ایک بار پھر اعادہ کیا۔
امن مذاکرات کا اگلا دور 8 فروری کو جنیوا میں ہو گا جس کی قیادت شام میں اقوام متحدہ کے سفیر سٹفان ڈی مسٹورا کریں گے۔
شام کی حکومت اور باغیوں نے آستانہ میں ہونے والے مذاکرات میں براہ راست حصہ نہیں لیا ۔ انہوں نے تمام تر گفتگو ثالث کے ذریعے کی۔
حالیہ برسوں میں، جب کہ شام میں جنگ جاری ہے، امن مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں اور ان کے نتیجے میں کئی کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں۔ جیسے محدود مدت کی فائر بندیاں اور انسانی ہمدردی کی امداد کی فراہمی کی اجازت اور تنازعے کے عمومی خاتمے کی جانب قدرے پیش رفت وغیرہ۔