شام کی حکومت اور حزب مخالف کے وفود بات چیت کے لیے قززقستان کے دارالحکومت آستانہ میں موجود ہیں جہاں پیر کو مذاکرات کا آغاز ہو رہا ہے۔
یہ بات چیت روس اور ترکی کی حمایت سے ہو رہی ہے، تاہم باغی گروہ کے ذرائع کے بعد اس عمل میں براہ راست مذاکرات شامل نہیں ہیں۔
روسی ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ اتوار کی رات گئے مذاکرات کے منتظمین روس، ایران اور ترکی کے نمائندوں کے درمیان ایک سہ فریقی اجلاس منعقد ہوا۔
روس اور ایران صدر بشارالاسد کی قیادت والی شام کی سرکاری افواج کے حامی ہیں، جب کہ ترکی اور امریکہ باغیوں کی حمایت کرتے ہیں، جو اُنھیں اقتدار سے ہٹانے کےخواہاں ہیں۔
توقع ہے کہ پیر کے روز ہونے والی اِس بات چیت کا محور دسمبر میں روس، ایران اور ترکی کی ثالثی میں ہونے والے سمجھوتے کے تحت ملک بھر میں نافذ کی گئی جنگ بندی کو مضبوط کرنے پر ہو گا، جو کافی حد تک کامیاب رہی ہے۔
تمام فریق نے، جن میں امریکی قیادت والا بین الاقوامی اتحاد بھی شامل ہے، کہا ہے کہ وہ شام میں دہشت گرد گروہوں کو نشانہ بنا رہا ہے، جیسا کہ داعش اور القاعدہ کے دھڑے، جنھیں امن مذاکرات میں مدعو کیا گیا ہے، جو جنگ بندی کے سمجھوتے میں شامل نہیں ہیں۔
تاہم شام اور اُس کے حامی روس اور ایران بھی مبینہ طور پر معتدل باغیوں کو نشانہ بناتے ہیں، جو چھ برس سے جاری تنازع کے دوران اسد سے نبرد آزما ہیں۔
اس سے پہلے کی جانے والی جنگ بندی کی کوششیں، جن میں امریکہ اور اقوام متحدہ شامل تھے، فوری طور پر ناکام رہیں چونکہ لڑائی میں ملوث فریق گولیوں کا تبادلہ کرتے اور ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہراتے رہے۔