30 ممالک کے نمائندوں کے علاوہ کانفرنس میں شام کے صدر بشارالاسد کے حکومتی نمائندوں اور حزب مخالف کے ارکان بھی شریک ہیں۔
شام میں تقریباً تین سال سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے بدھ کو سوئٹزرلینڈ میں امن کانفرنس کا آغا ہوا جس میں اقوام متحدہ اور دنیا کے تیس ممالک کے نمائندے شریک ہیں۔
کانفرنس میں شام کے صدر بشارالاسد کے حکومتی نمائندوں اور حزب مخالف کے ارکان بھی شریک ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے مونٹریو کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ گو کہ تنازع کا پرامن حل تلاش کرنے کا چیلنج ’’مشکل ترین‘‘ ہے لیکن شام کے فریقین کی کانفرنس میں شرکت سے اس بارے میں کچھ امید پیدا ہوئی ہے۔
اس کانفرنس کے انعقاد کا ارادہ گزشتہ سال مئی میں کیا گیا تھا اور مسٹر بان کے مطابق یہ آٹھ ماہ کا عرصہ ’’مشکل ترین راستہ‘‘ رہا جس میں بہت سا قیمتی وقت اور جانیں ضائع ہوئیں۔
بدھ کو ہونے والی اس کانفرنس میں مختلف ممالک کے وفود امن کوششوں کے حوالے سے اپنی تجاویز اور خیالات کا اظہار کریں گے جس کے بعد جمعہ کو جنیوا میں کانفرنس ہو گی جس میں صرف شام کے فریقین اور اقوام متحدہ۔عرب لیگ کے خصوصی نمائندے لخدار براہیمی شریک ہوں گے۔
مسٹر بان کا کہنا تھا کہ دوسرے مرحلے میں ہونے والی بات چیت طرفین کو ’’شام کو بچانے‘‘ کا موقع فراہم کرے گی۔ انھوں نے دونوں فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ تشدد ختم کریں اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کے لیے سہولت مہیا کریں۔ ان کے بقول شام میں سب ہی نے اس ضمن میں تاحال غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔
اس کانفرنس کا مقصد شام کی حکومت اور بشارالاسد کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی کاوشوں میں مصروف باغیوں کے درمیان ایک عبوری انتظامیہ کے لیے اتفاق پیدا کرنا ہے۔ شام کی حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ بشارالاسد مستعفی نہیں ہوں گے۔
کانفرنس میں شام کے صدر بشارالاسد کے حکومتی نمائندوں اور حزب مخالف کے ارکان بھی شریک ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے مونٹریو کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ گو کہ تنازع کا پرامن حل تلاش کرنے کا چیلنج ’’مشکل ترین‘‘ ہے لیکن شام کے فریقین کی کانفرنس میں شرکت سے اس بارے میں کچھ امید پیدا ہوئی ہے۔
اس کانفرنس کے انعقاد کا ارادہ گزشتہ سال مئی میں کیا گیا تھا اور مسٹر بان کے مطابق یہ آٹھ ماہ کا عرصہ ’’مشکل ترین راستہ‘‘ رہا جس میں بہت سا قیمتی وقت اور جانیں ضائع ہوئیں۔
بدھ کو ہونے والی اس کانفرنس میں مختلف ممالک کے وفود امن کوششوں کے حوالے سے اپنی تجاویز اور خیالات کا اظہار کریں گے جس کے بعد جمعہ کو جنیوا میں کانفرنس ہو گی جس میں صرف شام کے فریقین اور اقوام متحدہ۔عرب لیگ کے خصوصی نمائندے لخدار براہیمی شریک ہوں گے۔
مسٹر بان کا کہنا تھا کہ دوسرے مرحلے میں ہونے والی بات چیت طرفین کو ’’شام کو بچانے‘‘ کا موقع فراہم کرے گی۔ انھوں نے دونوں فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ تشدد ختم کریں اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کے لیے سہولت مہیا کریں۔ ان کے بقول شام میں سب ہی نے اس ضمن میں تاحال غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔
اس کانفرنس کا مقصد شام کی حکومت اور بشارالاسد کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی کاوشوں میں مصروف باغیوں کے درمیان ایک عبوری انتظامیہ کے لیے اتفاق پیدا کرنا ہے۔ شام کی حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ بشارالاسد مستعفی نہیں ہوں گے۔