انسانی حقوق کیلیے کام کرنے والی تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ شام کے مختلف شہروں میں سیکیورٹی فورسز اور حکومت مخالفین مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں 21 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
احتجاجی تحریک کو کچلنے کیلیے شامی فورسز کی جانب سے حکومت مخالفین کے خلاف گزشتہ ہفتے ایک بڑا کریک ڈائون کیے جانے کے باوجود جمعہ کے روز ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
دارالحکومت دمشق اور ملک کے مختلف شہروں اور قصبوں میں جمعہ کی نماز کے بعد کیے جانے والے ان مظاہروں کے شرکاء صدر بشارالاسد کی حکومت کی فوری برطرفی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ تشدد سے ہونے والی زیادہ تر ہلاکتیں ہومز کے شہر میں ہوئیں جہاں ان کے بقول سیکیورٹی فورسز نے فائرنگ کرکے 16 احتجاجی مظاہرین کو ہلاک کردیا۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی 'صنعا' کے مطابق جمعہ کے روز ہومز میں مسلح گروہوں کے ایک حملے میں ایک افسر سمیت پانچ پولیس اہلکار بھی مارے گئے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' نے عینی شاہدین کے حوالے سے دعویٰ کیاہے کہ شمالی قصبہ تیل میں ہونے والے ایک حکومت مخالف مظاہرے کے شرکاء پر بھی فورسز کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔ تاہم واقعہ میں کسی جانی نقصان کی تاحال کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔
سرکاری فورسز نے جمعہ کے روز شامی حزبِ مخالف کے ایک اہم رہنما ریاد سیف کو بھی اس وقت گرفتار کرلیا جب وہ دارالحکومت کے نواحی علاقے میدان میں ہونے والے ایک مظاہرے میں شریک تھے۔
دریں اثناء اقوامِ متحدہ نے اعلان کیاہے کہ شامی حکومت نے عالمی ادارے کی ایک امدادی ٹیم کو ملک میں داخلے کی اجازت دیدی ہے جو وہاں کے حالات کا جائزہ لے گی۔
ادھر برسلز سے جاری ہونے والے ایک بیان میں یورپی یونین نے کہا ہے کہ اس کی جانب سے مظاہرین پر تشدد میں ملوث 14 شامی حکومتی اہلکاروں کے خلاف پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ شام میں گزشتہ ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کے خلاف حکومتی کریک ڈائون میں اب تک کم از کم 600 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ آٹھ ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں جن کی اکثریت سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہے۔