شام سے آنے والی خبروں کے مطابق عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز اور گھات لگا کر حملہ کرنے والے افراد نے ہفتے کے روز سوگواروں کے ایک ہجوم پرفائرنگ کردی جس کے نتیجے میں کم ازکم آٹھ افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ افراد ایک روز قبل ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات میں شرکت کے آئے تھے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور عینی شاہدین نے کہا ہے کہ ہفتے کے روز فائرنگ کا یہ واقعہ دارالحکومت دمشق کے مضافاتی علاقے اور جنوبی قصبے عزرا میں پیش آیا۔
رپورٹ کے مطابق ہزاروں افراد ، تقریباً ان75 افراد کی تدفین میں شرکت کے لیے کچھ مقامات پر جمع ہوئے تھے، جو جمعے کے روز عینی شاہدین کے مطابق سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے تھے۔ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے پھینکے اور ان پر گولیاں چلائیں ۔
اس موقع پر کئی سوگواروں نے حکومت مخالف نعرے لگائے اور صدر بشارالاسد کے فوری استعفی ٰ کا مطالبہ کیا۔
ایک اور خبر کے مطابق شام کی پارلیمنٹ کے دو ارکان نے کہاہے کہ وہ شہریوں کی ہلاکتوں پر احتجاجاً اپنے عہدوں سے مستعفی ٰ ہورہے ہیں۔
عالمی طاقتوں نے جمعے کے روز مظاہرین کے خلاف بڑے پیمانے پر طاقت کے استعمال کی مذمت کرتے ہوئے شام کی حکومت پر نکتہ چینی کی ہے۔جمعہ کا واقعہ مارچ کے بعد سے ، جب سے عوامی مظاہرے شروع ہوئے ہیں، سب سے زیادہ ہلاکت خیز تھا۔
صدر اوباما نے اس واقعہ پرتنقید کرتے ہوئے مسٹر اسد پرالزام لگایا کہ وہ ایرانی مدد کے ساتھ طاقت کا بے رحمانہ استعمال کررہے ہیں۔
اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے شام کی سرکاری خبررساں ایجنسی ثنا نے ایک شامی عہدے دار کے حوالے سے کہاہے کہ مسٹر اوباما کے بیان میں ان حقاق کو پیش نظر نہیں رکھا گیا جن کا ملک کو سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ عہدے دار نے یہ بھی کہا کہ شام پر ایرانی مدد کاالزام غیر ذمہ دارانہ ہے جس سے شامی عوام کے لیے خطرات کھڑے ہوسکتے ہیں۔
ہفتے کے روز روس کی وزارت خارجہ نے بھی اس حوالے سے ایک ببان جاری کیا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ روس اب بھی شام کو اپنا ایک دوست سمجھتا ہے ، اور روس کا یہ پختہ خیال ہے کہ صرف تعمیری مذاکرات اور اصلاحات کے تیز تر نفاذ سے ہی ملک میں استحکام لایا جاسکتا ہے۔