شام کے ڈیڑھ سو سے زائد دانشوروں، حزبِ مخالف کے اہم رہنماؤں اور سرکردہ شخصیات نے ایک اجلاس میں ملک میں کئی ماہ سے جاری پرتشدد احتجاجی تحریک کے خاتمے اور جمہویت کی طرف پرامن پیش قدمی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
دارالحکومت دمشق میں پیر کے روز ہونے والے اس اجلاس کا آغاز شام کے قومی ترانے سے ہوا جس کے بعد مارچ سے جاری احتجاجی تحریک کے دوران ہلاک ہونے والے حکومت مخالف مظاہرین کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔
حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے دوران شام میں منعقد ہونے والے اپنی نوعیت کے اس پہلے اجلاس کے بارے میں شرکاء کا کہنا ہے کہ یہ حکومت یا سیاسی جماعتوں سے غیر متعلقہ اور آزاد شخصیات کے مابین ایک مکالمہ ہے۔
اجلاس میں لوئی حسین اور عارف دلیلا جیسی اہم سرکردہ شخصیات بھی شامل ہیں جو ان چار سرگرم کارکنوں کے وفد میں شامل تھے جنہوں نے بحران کے حل کے لیے صدر بشار الاسد کے نمائندوں سے ملاقات کی تھی۔ بعد ازاں ان شخصیات نے کریک ڈاؤن نہ روکے جانے پر بطورِ احتجاج حکومت سے مزید رابطہ رکھنے سے انکار کردیا تھا۔
حزبِ مخالف کے چند رہنماؤں نے پیر کے روز ہونے والے اس اجلاس میں شرکت سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ حکومتی منظوری سے ہونے والا اس طرح کا اجلاس صدر بشار الاسد کی حکومت کے لیے 'قانونی جواز' مہیا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
ایک نوجوان کارکن کےبقول اس اجلاس میں ہونے والے کسی بھی فیصلہ کا اطلاق " میدان میں موجود مظاہرین پر نہیں ہوگا"۔
واضح رہے کہ شامی حکام کو مذکورہ اجلاس سے قبل مطلع کیا گیا تھا اور حکومت کی جانب سے اس کے انعقاد میں رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔
صدر بشارالاسد کی اقتدار سے بے دخلی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین گزشتہ 100 دنوں سے سرکاری افواج کے کریک ڈاؤن کا سامنا کر رہے ہیں جس کے دوران غیر سرکاری تنظیموں کے بقول اب تک 1400 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں جن کی اکثریت غیر مسلح مظاہرین پر مشتمل ہے۔
شام میں جاری تنازعہ سنگین ہوجانے کے باعث اب تک 12 ہزار سے زائد شامی باشندے ترکی میں پناہ حاصل کرچکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر لبنان کی جانب نقل مکانی کر گئے ہیں۔