بھارتی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت نے تبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد کاندھلوی کے خلاف پہلے سے درج مقدمے میں قتل کی دفعہ بھی شامل کر لی ہے۔ تاہم تبلیغی جماعت کے ترجمان نے ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
میڈیا رپورٹس میں پولیس ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مولانا سعد کاندھلوی کے خلاف پہلے سے درج مقدمے میں تعزیرات ہند کی دفعہ 304 کا اضافہ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ دفعہ 304 کے تحت ملزم کی ضمانت نہیں ہو سکتی اور جرم ثابت ہونے پر کم از کم 10 برس قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ دہلی میں 20 سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی کے باوجود تبلیغی جماعت کے مرکز میں ہونے والے اجتماع میں ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی۔ شرکا میں سے متعدد کا کرونا وائرس ٹیسٹ مثبت آیا ہے اور کچھ کی موت واقع ہو چکی ہے۔
اجتماع میں شرکت کرنے والوں میں انڈونیشیا، ملائیشیا، بنگلہ دیش، امریکہ، برطانیہ اور دیگر ملکوں سے آنے والے 2000 سے زائد افراد شامل تھے۔
دہلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس اجتماع کی وجہ سے کرونا کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔
SEE ALSO: کرونا وائرس پھیلانے کا الزام، بھارت میں تبلیغی جماعت کا مرکز سیلاجتماع کے بعد تمام غیر ملکیوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں بھارتی شرکا کو بھی قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔ مولانا سعد بھی از خود قرنطینہ میں ہیں۔
دہلی حکام کا کہنا ہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں سامنے آنے والے کرونا وائرس کیسز میں سے تقریباً 3000 یا تو تبلیغی جماعت کے ارکان تھے یا ان سے رابطہ رکھنے والے تھے۔
یاد رہے کہ بھارت میں کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد 12 ہزار سے زائد ہو چکی ہے اور ہلاکتوں کی تعداد بھی 400 سے تجاوز کر گئی ہے۔
تبلیغی جماعت کے ترجمان شاہد علی ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ تبلیغی جماعت کے امیر کے خلاف درج مقدمے میں قتلِ خطا کی دفعہ شامل کرنے سے متعلق خبریں بے بنیاد ہیں۔ ایسی کوئی دفعہ مقدمے میں شامل نہیں کی گئی ہے۔
اُن کے بقول، مقامی ٹی وی چینل 'انڈیا ٹوڈے گروپ' نے یہ خبر نشر کی تھی جب نشریاتی ادارے سے رابطہ کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ یہ خبر پولیس ذرائع سے چلا رہے ہیں اور وہ خبر دینے والے افسر کا نام نہیں بتائیں گے۔
شاہد علی ایڈووکیٹ نے مزید بتایا کہ انہوں نے مولانا سعد کے خلاف درج مقدمے میں قتلِ خطا کی دفعوہ شامل کرنے سے متعلق تحقیقاتی افسران سے رابطہ کیا تاہم انہوں نے اس کی تردید کی ہے۔
ترجمان کے بقول، پولیس نے اُنہیں بتایا ہے کہ ایسی کوئی دفعہ مقدمے میں شامل نہیں کی گئی ہے۔
شاہد علی ایڈووکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ وہ مذکورہ میڈیا ہاؤس کے خلاف بے بنیاد خبر نشر کرنے پر قانونی کارروائی کریں گے۔