رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں کرونا سے پہلی ہلاکت، عبادت گاہوں کی بندش کا فیصلہ


بھارتی کشمیر میں 23 افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
بھارتی کشمیر میں 23 افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں کرونا وائرس سے پہلی ہلاکت کے بعد حکام نے مساجد، مزارات، مندروں اور دیگر مذہبی مقامات بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بھارتی کشمیر کے ایک انتظامی افسر ڈاکٹر شاہد اقبال چوہدری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عبادت گاہوں کو کووڈ-19 کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیشِ نظر بند کرنا ناگزیر ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسا ان عبادت گاہوں کی انتظامیہ کو اعتماد میں لینے اور ان کا تعاون حاصل کرنے کے بعد ہی کیا جائے گا۔

سرینگر کی درگاہ حضرت بل، جامع مسجد اور خانقاہِ نقشبندیہ کی انتظامیہ نے پہلے ہی انہیں نمازیوں کے لیے بند کر دیا ہے۔ جموں کے قریب ترکوٹا پہاڑیوں میں واقع ہندوؤں کی اہم عبادت گاہ ویشنو دیوی مندر کو پچھلے ہفتے زائرین کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔

البتہ وادی کی اکثر مساجد میں حکومت کی طرف سے جاری کی جانے والی ایڈوائزریز اور ڈاکٹروں اور دوسرے ماہرین کی ہدایات کے باوجود باجماعت نماز کا اہتمام جاری ہے۔ مساجد اور گھروں کی چھتوں سے بھی اذانوں کا سلسلہ جاری ہے۔

حکام نے تصدیق کی ہے کہ جمعرات کی صبح سرینگر کے ایک سرکاری اسپتال میں 65 سالہ شخص کی ہلاکت کرونا وائرس سے ہوئی۔

مذکورہ شخص تبلیغی جماعت کا ایک رکن تھا اور اس نے حال ہی میں نئی دہلی، ریاست اتر پردیش اور جموں میں منعقد ہونے والے کئی اجتماعات میں شرکت کی تھی۔ اور اس دوراں ملائیشیا اور انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے مندوبین سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ فوت ہونے والا شخص پہلے ہی شوگر اور بلڈ پریشر کے عارضوں میں مبتلا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اس شخص کو پہلے گھر جانے کی اجازت دے دی گئی، جس سے یہ وائرس تیزی سے دوسروں لوگوں میں منتقل ہوا۔ اسپتال انتظامیہ پر بھی مبینہ لاپرواہی کا الزام لگایا جا رہا ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کے پیشِ نظر علاقے میں گزشتہ ایک ہفتے سے جاری لاک ڈاؤن کو مزید سخت کر دیا گیا ہے۔

لوگوں کے گھروں سے باہر آنے پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے اور ایمبولینسز کے علاوہ صرف ان گاڑیوں کو سڑکوں پر چلنے کی اجازت دی جا رہی ہے جن میں کووڈ-19 سے نمٹنے کے کام پر مامور افراد اور لازمی سروسز کا عملہ سوار ہو۔

پولیس نے دفعہ 144 اور ڈیزاسٹر منیجمنٹ ایکٹ 2005 کے تحت نافذ کی جانے والی کرفیو یا کرفیو جیسی پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے پر 300 سے زائد افراد کو حراست میں لیا ہے یا ان کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں۔

علاوہ ازیں درجنوں دُکانوں اور ہوٹلوں کو مبینہ طور پر قانون توڑنے پر سیل کر دیا گیا ہے۔ جموں کے علاقے میں بھی گزشتہ چار دن سے مکمل لاک ڈاؤن ہے۔ لداخ سمیت جموں و کشمیر میں کووڈ-19 سے متاثرہ افراد کی تعداد 23 ہے۔ تاہم ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اب تک اس وائرس کے تین مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔

اس دوراں پاکستان، بنگلہ دیش اور بعض دیگر ملکوں میں زیرِ تعلیم کشمیری طلبہ کی واپسی کے بھی مطالبات کیے جا رہے ہیں۔

لیکن بھارت کی حکومت نے بدھ کو بنگلہ دیش میں موجود ایسے طلبہ کو پیغام دیا ہے کہ وہ وہیں اپنے ہاسٹلز میں موجود رہیں۔ البتہ بھارت کی حکومت نے قازقستان میں پھنسے طلبہ کو واپس لانے کے لیے انتظامات شروع کر دیے ہیں۔

بھارتی کشمیر کے حکام کا کہنا ہے کہ بھارت بھر میں لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد پروازوں کی منسوخی اور ریل، بس اور دوسری پبلک ٹرانسپورٹ بند ہونے سے بنگلور، نئی دہلی اور دُوسرے شہروں میں موجود کشمیریوں کو واپس لانے کے لیے اقدامات پر غور کر رہی ہے۔ حکام نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران وادی میں داخل ہونے والے پانچ ہزار سے زائد افراد کو قرنطینہ میں رکھا ہوا ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG