تاجکستان انتہا پسندی کو ہوا دینے کے اقدامات سے گریز کرے

تاجکستان انتہا پسندی کو ہوا دینے کے اقدامات سے گریز کرے

ہفتہ کو تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں صدر امام علی رحمانوف سے ملاقات کے بعد ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ خطے کے مستقبل کی سلامتی مذہبی اظہار کی آزادی سے منسلک ہے۔ ’’مجھے مذہبی آزادی پر پابندیوں سے اختلاف ہے اور اس حوالے سے پائے جانے والے خدشات سے اتفاق کرتی ہوں۔‘‘

امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے تاجکستان کو متنبہ کیا ہے کہ مذہبی آزادی کو کچلنے کی کوششیں نقصان دہ اورانتہا پسندانہ نظریات کے حامیوں کے لیے ہمدردی میں اضافے کا باعث بنیں گی جو اس وسطی ایشیائی ریاست کوعدم استحکام سے دو چار کرسکتی ہے۔

ہلری کلنٹن ہمسایہ ملک افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ میں معاونت کرنے پر وسطی ایشیائی کی ریاستوں کا شکریہ ادا کرنے کے سلسلسے میں ان ملکوں کا دورہ کر رہی ہیں۔

ہفتہ کو تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں صدر امام علی رحمانوف سے ملاقات کے بعد ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ خطے کے مستقبل کی سلامتی مذہبی اظہار کی آزادی سے منسلک ہے۔ ’’مجھے مذہبی آزادی پر پابندیوں سے اختلاف ہے اور اس حوالے سے پائے جانے والے خدشات سے اتفاق کرتی ہوں۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ مذہب کو منظم کرنے کی کوششیں مذہب کا جائز اظہار کرنے والوں کو زیر زمین جانے پر مجبور کر سکتا ہےجس سے شورش اور بے چینی کو ہوا ملے گی۔

امریکی وزیر خارجہ ازبکستان بھی جائیں گی جہاں وہ ہفتہ کی شب صدر اسلام کریموف سے ملاقات کریں گے۔ وسطی ایشیا کے دورے سے قبل اُنھوں نے افغانستان اور پاکستان کے قائدین سے ملاقاتوں میں بھی خطے میں امن و استحکام کی کوششوں پر بات چیت کی۔

صدر کریموف اور تاجک صدر رحمانوف دونوں نے اپنے ملکوں میں مذہبی رجحانات کو محدود کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ تاجکستان اور ازبکستان سویت یونین کے خاتمے کےبعد آزاد ریاستوں کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرے تھے لیکن دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ان ملکوں میں آمریت پسند حکمران اقتدار پر براجمان ہیں۔

تاجکستان ایک مسلمان ملک ہے جس کی آبادی پچھتر لاکھ ہے اور افغانستان کے ساتھ اس کی سرحد ایک ہزار تین سو چالیس کلومیٹر طویل ہے۔

حکومت نے اس سال اگست سے ملک میں جن نئے قوانین کا نفاذ کیا ہے اُن کے تحت نوجوانوں پر مساجد، گرجا گھروں اور دیگر مذہبی مقامات میں جا کر عبادت کرنے پر پابندی ہے۔

لیکن ملک میں مذہبی رہنماؤں کی طرف سے ان قوانین پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ 1992 سے اقتدار پر قابض صدر رحمانوف نے کہا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کو پھیلنے سے روکنے کے خلاف سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ وہ ماضی میں بھی مذہبی آزادی کے خلاف کارروائیاں نہ کرنے کی مغربی ملکوں کی درخواستوں کو نظر انداز کرچکے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ کلنٹن نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ تاجک قیادت ان پابندیوں کا ازسر نو جائز لے گی۔’’آپ کو ایسے اقدامات پر عملدرآمد سے قبل ان کے نتائج کو دیکھنا ہوگا۔‘‘

روس کے حمایت یافتہ تاجک صدر کی حکومت اور انتہا پسند مسلمان مخالفین کے درمیان1992 سے 1997 کے دوران ہونے والی خانہ جنگی میں ہزاروں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

تاجکستان اور ازبکستان امریکہ کے بقول اُس ’’شمالی ترسیلی نیٹ ورک‘‘ یا راہداری کا حصہ ہیں جس سےافغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں مصروف امریکی اور نیٹو افواج کے لیے رسد بہم پہنچائی جاتی ہے اور جو روس، لیٹویا، جارجیا، آزربائیجان اور قازقستان سے بھی گزرتی ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی کے پیش نظر یہ راہداری اتحادی افواج کے لیے بہت زیادہ اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔

افغانستان میں تعینات اتحادی افواج کے لیے زمینی راستے سے نصف سے زائد رسد پاکستان سے ہو کر گزرتی ہے اور جوایک کم خرچ سہولت ہے۔ لیکن امریکہ کی کوشش ہے کہ اس مقدار کو کم کر کے ایک تہائی کردے اور زیادہ تر رسد ’شمالی ترسیلی نیٹ ورک‘ کے ذریعے بھیجی جائے۔